لاہور: سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ریلوے میں 60 ارب روپے خسارے کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وزیر ریلوے سعد رفیق کو بولنے اور بیٹھنے سے منع کر دیا۔
ہفتے کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مقدمے کی سماعت کے دوران خواجہ سعد رفیق عدالت میں پیش ہوئے۔ کارروائی شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق صاحب روسٹرم پر آئیں اور لوہے کے چنے بھی ساتھ لیکر آئیں۔
سعد رفیق نے جواب دیا کہ ‘یہ بیان آپکے لیے نہیں تھا سیاسی مخالفین کے لیے تھا’۔ جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ‘ہم ابھی آپ کی ساری تقریروں کا ریکارڈ منگواتے ہیں اور خسارے کا بھی’۔
عدالت عظمی نے وزیر ریلوے سے استفسار کیا کہ بتائیں ابھی تک ریلوے میں کتنا خسارہ ہوا ہے؟
ایک موقع پر سعد رفیق نے عدالت سے کہا کہ ‘چیف جسٹس صاحب آپ نے مجھے یاد کیا تھا’ جواب میں عدالت عظمی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے یاد نہیں کیا تھا، سمن کیا تھا۔’
چیف جسٹس ثاقب نثار نے واضح کیا کہ وہ وقت چلا گیا جب عدالتوں کا احترام نہیں کیا جاتا تھا۔
سعد رفیق نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے بولنے کی اجازت دی جائے جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ عدالت کے سامنے اتنا جارحانہ انداز نہ اپنائیں۔ وزیرریلوے نے وضاحت کی کہ جارحانہ انداز نہیں اپنا رہا اپنا موقف دینے کی کوشش کررہا ہوں، آپ ہمارے بھی چیف جسٹس ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے سعد رفیق سے کہا کہ جب تک عدالت نہیں کہے گی آپ چپ رہیں گے۔ اس پر وزیر ریلوے نے کہا کہ کیا پھر میں بیٹھ جاؤں۔ عدالت نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ‘نہیں، جب تک ہم کہیں گے آپ یہیں کھڑے رہیں گے۔’
وفاقی وزیر ریلوے نے عدالت سے کہا کہ اگر مجھے نہیں سننا تو پھر میں چلا چاتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ‘آپ چلے جائیں ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔’
چیف جسٹس نے سعد رفیق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جس نیت سے آئے ہیں وہ ہم جانتے ہیں۔
سماعت مکمل ہونے کے بعد سعد رفیق نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عدالت کے سامنے ریلوے سے متعلق حقائق اور جو بہتری آئی ہے اس کی تفصیل رکھی ہے۔ جب ادارہ ملا تو 35 ارب خسارے میں تھا، آمدن بہت کم تھی، آج چند برسوں میں خسارہ کم کر کے 30 ارب روپے اور آمدن بڑھا کر 50 ارب روپے تک کر دی ہے۔
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ آڈٹ رپورٹ ہر محکمے کی بنتی ہے۔ جس میں اعتراضات ہوتے ہیں، ان اعتراضات کا جواب دیا جاتا ہے جس کے بعد صورتحال واضح ہوتی ہے۔ ملک کا ہر ادارہ اسی نظام کے تحت کام کر رہا ہے، ریلوے میں بھی یہی نظام لاگو ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے اعتراضات کو کرپشن قرار دینا میڈیا کا درست رویہ نہیں ہے۔
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ اپنے دور میں ملازمین کی چھانٹی نہیں کی، خسارے کے باوجود غریب کو سفری سہولیات فراہم کرنے والی برانچ لائنوں کو فعال رکھا۔ جس ادارے کے ملازمین اسے اپنی شناخت بناتے ہوئے شرمانے لگانے تھے آج وہ فخریہ طور پر اپنا تعلق ریلوے سے ظاہر کرتے ہیں۔