رضوان گوندل تبادلہ کیس، پنجاب حکومت کو جواب جمع کرانے کا حکم


اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلہ کیس میں پنجاب حکومت اوراحسن جمیل گجر کو سیاسی اثرورسوخ سے متعلق انکوئری رپورٹ کا جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ خاتون اول کے سابق شوہر خاور مانیکا اور ان کے دوست احسن جمیل گجر عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔

عدلت کے حکم پر نیکٹا کے چیئرمین خالق داد لک نے ڈی پی او کے تبادلے میں سیاسی اثر رسوخ کے استعمال کے حوالے سے اپنی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

عدالت نے رپورٹ کی کاپی پنجاب حکومت اور احسن جمیل گجر کو فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین تین دنوں میں عدالت میں جواب جمع کرائیں۔

خالق داد لک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بظاہر تفتیش سے لگتا ہے کہ ڈی پی او پاک پتن کا تبادلہ وزیر اعلی ہاؤس کے احکامات پر ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بات تعویذ کی طرح باندھ لیں کہ آرٹیکل 62 ون ایف کیا ہے، پہلے معافیاں مانگتے تھے اور ہم معافیاں دیتے رہے لیکن اس بار معافی نہیں ملے گی۔ چیف جسٹس

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے فون کیے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ احسن جمیل گجر کا رویہ پہلے کچھ اور تھا، اب وہ معافیاں مانگنے پر اتر آیا ہے، اور سر جھکا کر کھڑا ہے، ہم کیوں ان کو معافی دیں؟
عدالت نے حکم دیا کہ رپورٹ کی کاپی وزیر اعلیٰ پنجاب, احسن جمیل گجر اور آئی جی کلیم امام کو دی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیر تک فیصلہ سنا دیں گے۔

پولیس انکوائری رپورٹ

کیس کی سماعت کے دوران پولیس کی طرف سے واقعہ کی نئی انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ایس او وزیر اعلیٰ کی طرف سے پولیس حکام کو رات گئے فون کرنا ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے، ڈی پی او پاکپتن کے ٹرانسفر میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا، ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ یک جنبش  قلم کیا گیا۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ رضوان گوندل کا تبادلہ وزیراعلیٰ کے کہنے پر کیا گیا، آئی جی نے صرف ربڑ سٹیمپ کے طور پر کام کیا۔

پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ احسن جمیل گجر خود اپنے طور پر بچوں کا محافظ بنا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مقدمہ ہمارے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا یہ معاملہ واقعی بہت حساس نوعیت کا ہے، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کی پولیس مداخلت کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں ملے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں وزیراعلیٰ کے پولیس کو بلانے پر کوئی اعتراض نہیں، ہم یہ پوچھ رہے ہیں وزیر اعلیٰ نے ایک اجنبی کی موجودگی میں کیوں پولیس کو بلایا ؟  اس وقت احسن جمیل گجر جھک کر کھڑے ہیں، پہلے احسن جمیل گجر کی ٹون ہی الگ تھی، احسن جمیل گجر سمجھ رہے تھے شاید وہ وزیر اعلیٰ کے قریب ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ احسن جمیل گجر ہر انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمہ چلایا جائے؟

خاور مانیکا عدالت میں آبدیدہ ہو گئے

خاور مانیکا نے کہا کہ ہم پولیس رپورٹ کے حقائق سے متفق نہیں ہیں، یہ میری بچی کا معاملہ تھا، خاور مانیکا نے سوال کیا کہ کیا میں بچوں کے لیے اپنی سابق بیوی یا عمران خان سے بات کرتا ؟ خاور مانیکا عدالت میں آبدیدہ ہوگئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں رونے کی ضرورت نہیں ہے،جذباتی ہونے کی کوشش نہ کریں، آپ مقدمے سے الگ ہوجائیں، ہم خود انکوائری کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کا مقدمہ سے کیا تعلق ہے؟ جو بھی کہنا ہے تحریری جواب کی صورت میں کہیں، عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

احسن جمیل گجرکی میڈیا سے بات چیت

سماعت سے پہلے عدالت پہنچنے پر احسن جمیل گجرسے جب ایک صحانی نے سوال کیا کہ خالق داد لک کی رپورٹ عدالت میں جمع ہو گئی ہے آپ کو کیا امید ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ امید تو ہمیشہ اچھی رکھنی چاہیے۔

احسن جمیل گجر نے کہا انہیں امید ہے کہ انصاف ہو گا۔ اس سوال پر کہ کیا آپ نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے سفارش کرائی ہے؟ احسن جمیل گجر نے کہا میں نے کوئی سیاسی مداخلت نہیں کرائی، سوال ہوا اگر سیاسی مداخلت نہیں کرائی تو معافی کیوں مانگی، تو احسن گجر نے جواب دیا کہ بزرگوں سے معافی مانگی چاہئے۔

گزشتہ سماعت کی کارروائی

گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے معاملے پر دوبارہ انکوائری کی ہدایت کرتے ہوئے نیکٹا کے سربراہ خالق داد لک کو 15 دنوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ خالق داد نے رپورٹ منگل کو عدالت میں جمع کرا دی ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے سپریم کورٹ کے سامنے غیر مشروط معافی مانگ لی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو آئندہ محتاط رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ سب سے بڑا صوبہ چلا رہے ہیں۔

ڈی پی او کے تبادلہ پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ماہ اگست میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کا ازخود نوٹس لے لیا تھا۔ چیف جسٹس نے یہ نوٹس میڈیا میں ان اطلاعات کے آنے پر لیا تھا کہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا خاتون اول کے سابقہ شوہر خاور مانیکا کو روکنے پر تبادلہ کیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق 23 اگست کو خاور مانیکا لاہور سے پاکپتن آ رہے تھے کہ سکھ پور کے قریب ایلیٹ فورس پولیس نے ان کو روک کر پوچھ گچھ کرنا چاہی مگر وہ رکنے کے بجائے گاڑی آگے لے گئے۔ پولیس کی گاڑی نے ان کا تعاقب کر کے انہیں روکا تو پولیس کے ساتھ ان کی تلخ کلامی ہوئی، بعد ازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب کلیم امام نے ڈی پی او رضوان گوندل کو خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر ان سے معافی مانگنے کو کہا اور انکار پر ان کا تبادلہ کر دیا۔

آئی جی پنجاب کلیم امام  نے اپنے باضابطہ مؤقف میں کہا ہے کہ ڈی پی او کو غیر ذمہ دارانہ رویے پر تبدیل کیا گیا ہے۔ آئی جی کے مطابق ایک شہری سے پولیس اہلکاروں کی بدتمیزی کے معاملے پر ڈی پی او نے غلط بیانی کی۔


متعلقہ خبریں