تھر میں قحط،ایک ماہ میں 33 بچے جاں بحق


کراچی: سندھ کے پسماندہ ترین ضلع تھر پارکر مٹھی کے سول اسپتال میں غذائیت کی کمی کا شکار مزید دو نومولود بچے جاں بحق ہوگئے جس کے بعد ایک ماہ میں ہلاکتوں کی تعداد 33 ہو گئی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق تھر کے گوٹھوں میں موجود آدھی سے زائد آبادی بھوک اور پیاس کا شکار ہے۔ سندھ حکومت نے تھر کو قحط سے متاثر ضلع تو قرار دیا لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔

ماضی کی اپوزیشن بھی مختلف فورم پر تھر باسیوں کی پریشانیوں پر آواز اٹھا رہی ہیں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سندھ کے پارلیمانی سربراہ حلیم عادل شیخ بھی چار رکنی وفد کے ہمرا علاقے کا دورہ کر چکے ہیں۔ 

حکومت کی جانب سے تھر کے رہائشیوں کے لیے مفت امدادی گندم تقسیم کرنے اور پانی کے ٹینکر گاؤں تک پہنچانے کے اعلانات تو کیے گئے لیکن ان پر عمل نہیں ہو سکا۔

سندھ اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ چھ برس سے غذائی قلت کا شکار بچے مر رہے ہیں مگر حکومت صرف دعوؤں سے کام چلانے میں مصروف ہے۔ حکومت تھر کے مسئلے پراعلانات کے بجائے مستقل بنیادوں پر پالیسی بنائے تاکہ مسئلے کا مستقل حل نکالا جا سکے۔

اس سے قبل علاقے میں قحط کے باعث  مقامی آبادی اپنے مویشیوں اور بچوں کے ساتھ بیراج کی طرف نقل مکانی کر چکی ہے۔

 

متعلقہ خبریں