منی بجٹ: ماہر معاشیات اور عوام کیا کہتے ہیں!



اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف نے منی بجٹ میں نئے ٹیکسز عائد کر کےعوام کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔

اگرچہ وزیرخزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ نئے ٹیکسز کے دائرے میں صرف 70 ہزار افراد ہی آئیں گے تاہم اس حوالے سے ماہرین اقتصادیات  مختلف رائے رکھتے ہیں۔

ہم نیوز نے منی بجٹ کے اثرات جاننے کے لیے مختلف معاشی ماہرین سے بات چیت کی اور سوال اٹھایا کہ عام آدمی کی زندگی پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

تجزیہ کار فہیم سردار نے ہم نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ منی بجٹ کے خدوخال سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت معاشی سرگرمیوں میں اضافہ چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ایسے لوگوں پر ٹیکس لگایا گیا ہے جو اسے ادا کر سکتے ہیں۔

 ماہر معاشیات اشفاق تولہ نے ہم نیوز کو بتایا کہ قبل ازیں جائیداد کی خرید و فروخت اورگاڑیوں کے کاروبار میں موجود سٹے بازوں نے پوری معیشت کو جمود کا شکار کر دیا تھا اور ہم نے بڑی مشکل سے  ان پر ٹیکس عائد کیے تھے۔ پتا نہیں نئی حکومت پر کونسا دباؤ تھا کہ انہوں نے آتے ہی یہ ٹیکس ہٹا دیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ کبھی ٹیکس نہیں دیتے اور نہ ہی دیں گے۔

شفاق تولہ نے کہا اس لابی نے نئے پاکستان میں آج اپنی پہلی کیل ٹھوک دی ہے۔ ٹیکس اصلاحات میں اس قسم کے مافیا کی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت معیشت کو جس طرز پر چلانا چاہ رہی ہے اگر اسی طریقے سے چلتے رہے تو آخری سال تک جب یہ پہنچیں گے تو ان کا بجٹ خسارہ آخری دونوں حکومتوں سے زیادہ ہو گا۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ معیشت کی بہتری کے لیے شرح سود میں کمی اور روپے کی قدر میں اضافہ کرنا ہو گا، حکومت کو ترقی والے ماڈل کی طرف جانا ہو گا۔

تجزیہ کار مزمل اسلم نے بتایا کہ ٹیکس حکومت کی ضرورت ہے لیکن حکومت نے منی بجٹ میں انہی لوگوں پر بوجھ ڈالا جارہا ہے جو پہلے سے متاثر ہیں اور جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے ان کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ حکومت نے پابندی عائد کی تھی کہ جو ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتے وہ 50 لاکھ سے اوپر گھر اور گاڑی نہیں لے سکتے لیکن اس حکومت نے وہ پابندی بھی ہٹا دی۔

ماہر معاشیات ہارون اگر کا کہنا تھا کہ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں پر توجہ نہیں دی گئی، ہم نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ تاجر برادری کو اعتماد میں لینے سے بہتری آئے گی۔ ہم بتائیں گے کہ نان فائلر کو ٹیکس نیٹ میں کیسے لانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے نتائج دو سال سے پہلے سامنے نہیں آئیں گے۔

 


متعلقہ خبریں