لاہور: پنجاب میں نجی علاج کے لیے با قاعدہ قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ اسپتال من چاہی فیسیں وصول کررہے ہیں۔
ہم نیوز کو دستیاب اعدادوشمار کے مطابق پنجاب ہیلتھ کیئرکمیشن کے پاس 48 ہزار 114 علاج گاہیں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں 41 ہزار نجی کلینکس اور اسپتال بھی شامل ہیں۔ یہاں آنے والے مریضوں کو طبی سہولیات حاصل کرنے کے لیے مہنگی قیمتیں ادا کرنا پڑتی ہیں۔
پرائیویٹ اسپتالوں کے معاملات پر نظر رکھنے والا ادارہ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن بھی معالجین کی فیسوں کی حد مقرر کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ڈی جی ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر منیر نے ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ مسئلہ کے حل کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔
مہنگے علاج سے متاثر افراد کا کہنا ہے کہ صوبہ بھر کے سرکاری اسپتالوں، ٹی ایچ کیوز، ڈی ایچ کیوز اور ڈسپینسریوں میں پرچی فیس نہیں لی جاتی۔ حکومت سرکاری اسپتالوں میں طبی سہولیات بہتر بنا دے تو بھاری فیسوں کا بوجھ بھی خود بخود کم ہو جائے گا۔
اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے نجی اسپتالوں میں مہنگے علاج کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے مریضوں سے وصول کی جانے والی فیسوں کی لسٹ طلب کی تھی۔
نجی اسپتالوں کی مہنگی فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ پرائیویٹ اسپتالوں کو لوٹ مار کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔