قتل کا معمہ حل، بیٹی نے معمر باپ کے خلاف کردار ادا کیا

punjab police

ہزاروں نوکریاں بیروزگار نوجوانوں کو خوشخبری سنا دی گئی


لاہور: پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں معمر فرد کے قتل کا معمہ اس وقت حل ہو گیا جب پولیس نے 55 سالہ عمر خان کے قتل کے الزام میں مقتول کی بیٹی کو ملوث پایا۔

پولیس کے مطابق بادامی باغ کے رہائشی عمر خان کی بیٹی عائشہ اپنے ماموں زاد عمیر سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن باپ اس میں رکاوٹ تھا۔ عائشہ نے عمیر کو اپنے والد کے گھر سےنکلنے کی خبر دی جس پر اس نے دکان کے سامنے عمر خان کو قتل کردیا۔

ہم نیوز کے مطابق پولیس نے 17 اگست کو بادامی باغ میں ہونے والے قتل کے الزام میں عائشہ اور عمیر کو گرفتار کرلیا ہے۔ پولیس واقعہ کی مزید تفتیش کررہی ہے لیکن یہ بات تاحال واضح نہیں کہ پولیس کے پاس موجود شواہد کے ذریعے نامزد کردہ ملزمان کو عدالت سے سزا ملے گی یا کراچی کی اسما نواب والی کہانی دہرائی جائے گی؟

سعودآباد ملیر کراچی میں والدین اور بھائی کے قتل کے الزام میں کراچی پولیس نے اسما نواب کو 1998 میں گرفتار کیا تھا۔ اس پر بھی پولیس نے الزام عائد کیا تھا کہ پسند کی شادی کے لیے اسما نواب نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ مل کر ماں باپ اور بھائی قتل کیے ہیں۔

عدالت نے قتل کے الزام میں اسما نواب اور دو شریک ملزمان کو پھانسی اور تیسرے ملزم کو دس سال قید کی سزا دی تھی۔ ملزمان نے 1999 میں سندھ ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کیں تو نو سال بعد 2008 میں منقسم فیصلہ آیا۔ ایک جج نے شواہد کو ناکافی قرار دیا تو دوسرے نے سزائے موت برقرار رکھی۔

ملزمان نے عدالت عالیہ سندھ کے فیصلے کے خلا ف عدالت عظمیٰ میں اپیلیں دائر کیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کی رہائی کا حکم دیا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ملزمان کے خلاف براہ راست کوئی ثبوت نہیں پیش کیے گئے، شواہد میں جھول اور خامیاں ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ پراسیکیوشن اپنے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس موقع پر ریمارکس دیے تھے کہ پولیس اپنے طریقے سے ملزم تک پہنچ جاتی ہے مگر عدالت میں ثابت نہیں کرسکتی، عدم شواہد پر ملزم چھوٹ جاتے ہیں پھر کہا جاتا ہے عدالتیں چھوڑ دیتی ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کہ بیس سال سے ملزم جیل میں ہے سزا تو ویسے ہی اسے ثبوت کے بغیر دے دی گئی ہے۔ ملزمان کی اپیلیں 16 سال زیرسماعت رہیں جب کہ ملکی قانون کے مطابق عمر قید کی سزا 14 سال ہے یعنی اسما نواب اور دیگر نے عمر قید سے بڑھ کر سزا کاٹی اور بے گناہ قرار دے کر انہیں رہا کیا گیا۔


متعلقہ خبریں