صدارتی انتخاب: کس جماعت کو فتح نصیب ہو گی؟


 

اسلام آباد: ملک میں عام انتخابات کی گہماگہمی کے بعد حکومت سازی کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور اب صدارتی انتخاب کا مرحلہ باقی رہ گیا ہے۔

صدارتی انتخاب کے لیے جو الیکٹورل کالج تشکیل دیا جاتا ہے اس میں قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں شامل ہو تی ہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ہر رکن کا ایک ووٹ ہوتا ہے تاہم چاروں صوبائی اسمبلیوں کے معاملے میں ووٹوں کی تقسیم ایک مخصوص فارمولا کے تحت کی جاتی ہے۔

صدارتی انتخاب میں سب سے چھوٹی اسمبلی کی تعداد کوبنیاد بنا کر فارمولا تیار کیا جاتا ہے، اس وقت بلوچستان کے ارکان کی تعداد 65 ہے اور یہاں سے ہر رکن اسمبلی کا ایک ووٹ ہو گا جبکہ دیگر صوبوں کی نشستوں کو 65 سے تقسیم کیا جائے گا اور جو عدد حاصل ہو گا وہ صدارتی انتخاب کے لیے اس اسمبلی کے ایک ووٹ کے برابر گنا جائے گا۔

قومی اسمبلی کے 342، سینیٹ کے 104 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 65 ارکان فی اسمبلی کا مجموعہ 706 ہے جو کہ الیکٹورل کالج کا مجموعی نمبر ہے۔

قومی اسمبلی میں اس وقت 342 کے ایوان میں 330 ارکان موجود ہیں جبکہ 12 سیٹیں خالی ہیں، ان 330 ارکان میں 176 کا تعلق پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں سے ہے، 150 اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں جبکہ چار آزاد ارکان ہیں۔

پنجاب اسمبلی کے ارکان 371 ہیں جنہیں 65 سے تقسیم کرنے سے 5.70 ارکان پر مشتمل ایک ووٹ ہوگا، حکومتی ارکان 189 ہیں جن کو تقسیم کرنے سے کل ووٹ 33 بنتے ہیں جبکہ اپوزیشن الائنس کے ارکان کی تعداد 171 ہے اور ان کے 30 ووٹ بنیں گے اسی طرح آزاد ارکان 5 ہیں جن کا ایک ووٹ گنا جائے گا۔

سندھ اسمبلی میں 168 ارکان ہیں اور ہر 2.80 ارکان پر مشتمل ایک ووٹ ہوگا، حکومتی اتحاد کے 98 ووٹ ہیں جو تقسیم ہونے کے بعد 48 ووٹ تصور کیے جائیں گے، پی ٹی آئی الائنس کے 65 ارکان ہیں اور ان کے ووٹ 26 بنیں گے، تحریک لبیک کے تین ارکان ہیں لہٰذا ان کے پاس ایک ووٹ ہے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں ارکان کی تعداد 124 ہے اس طرح ہر 1.90 ارکان کا ایک ووٹ ہے، اس اسمبلی میں حکومت کے 85 ارکان ہیں اور انہیں 45 ووٹ ملیں گے، اپوزیشن الائنس کے پاس 33 ارکان ہیں اور ان کے کل ووٹ 18 ہوں گے، آزاد ارکان کی تعداد تین ہے لہٰذا انہیں دو ووٹ ملیں گے۔

بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے 41، اپوزیشن کے 16 اور آزاد ارکان کے 4 صدارتی ووٹ ہیں۔

اعدادوشمار کے اس گورکھ دھندے کو اکٹھا کیا جائے تو پی ٹی آئی اتحاد کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 201، پنجاب سے 33، سندھ سے 26، خیبر پختونخوا سے 45 اور بلوچستان سے 41 ووٹ ملیں گے اور یوں ان کے متوقع ووٹوں کی کل تعداد 346 ہو جائے گی۔

اپوزیشن اتحاد کو وفاق سے 218، پنجاب سے 30، سندھ سے38، خیبر پختونخوا سے 18 اور بلوچستان سے 16 ووٹ مل سکتے ہیں جس سے ان کے ووٹوں کی تعداد 320 تک پہنچ سکتی ہے۔

اس طرح صدارتی انتخاب میں پی ٹی آئی امیدوار کو واضح برتری حاصل ہونے کا امکان ہے۔


متعلقہ خبریں