سستی روٹی کی ضرورت کب پوری ہو سکے گی!

سستی روٹی کی ضرورت کب پوری ہو سکے گی! | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد/لاہور/کراچی: نواز لیگ کے گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں جہاں ترقیاتی منصوبوں کی بھرمار رہی وہیں ایک کے بعد ایک تنازعات بھی اس کی پریشانیاں بڑھاتے رہے، انہی میں ایک سستی روٹی منصوبہ بھی تھا جسے بڑے زوروشور سے شروع تو کیا گیا لیکن اس کی ناکامی نے لیگی حکومت کے لیے خاصی مشکلات پیدا کیں۔

پنجاب حکومت نے سستی روٹی نامی منصوبہ پر آٹھ ارب روپے خرچ کیے لیکن آڈیٹر جنرل رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ عوام کو دو روپے کی روٹی دینے کے لیے حکومت نےبینکوں سے پندرہ فیصد تک مارک اپ پر 25 ارب روپے قرض لیا تھا۔

سستی روٹی اسکیم سے متعلق آڈٹ پیرے کا جواب نہ دینے پر پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ اور اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے خط بھی لکھا لیکن سستی روٹی اسکیم سے متعلق محکمے نے جواب دینا ہی گوارا نہ کیا۔

پنجاب میں سستی روٹی اسکیم اسکینڈل کے آڈٹ پیرے تاحال عمل کے منتظر اور زیر التواء ہیں۔ اس مواد میں آٹےکی قیمت میں گھپلے، مہنگے تندور لگانےاور ریکارڈ میں ردوبدل کی نشاندہی تو کی گئی ہے لیکن آٹے پر دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔

معاملہ نے حساس صورتحال اختیار کی تو پنجاب کے محکمہ صنعت نے ذمہ داری کا سارا ملبہ محکمہ خوراک پر ڈال دیا۔

کراچی اور اسلام آباد میں ’سستی روٹی‘

اسلام آباد کے نان بائی اپنی بنائی روٹی کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وزن بھی ٹھیک ہے اور آٹا بھی صحیح استعمال کیا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں صارفین کی دلچسپی اور ذائقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف اقسام کے نان بھی جابجا دستیاب ہیں لیکن ان کے نرخ ہر جگہ الگ ہی نظر آتے ہیں۔

اسلام آباد میں سادہ روٹی سات روپے اور مخصوص وزن کا نان 10 روپے کی قیمت میں دستیاب ہے۔ تمام رہائشی آبادیوں اور تجارتی مراکز میں قائم تندور اور کھانے پینے کے مراکز شہریوں کی یہ ضرورت پوری کرتے ہوئے بیشتر اوقات رش سے بھرے نظر آتے ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے شہر اور ذائقوں کا گھر کہے جاسکنے والے کراچی میں بھی روٹی کی مختلف اقسام میسر ہیں۔ قیمت اور وزن کا فرق یہاں بھی عام دیکھا جا سکتا ہے۔ مختلف علاقوں میں وزن اور معیار کے فرق کے ساتھ روٹی دستیاب ہوتی ہے۔ متعلقہ ادارے روٹی کی قیمت مقرر تو کرتے ہیں لیکن وصول کتنی کرنی ہے اس کا فیصلہ نانبائی ہی کرتے ہیں۔

لاہور میں ایک تندرو پر روٹیاں پکائی جا رہی ہیں۔
لاہور میں ایک تندرو پر روٹیاں پکائی جا رہی ہیں۔

بنیادی ضرورت کی فراہمی کیسے؟

شہری روٹی کی زائد قیمتوں سے پریشان ہونے کے باوجود اس روز مرہ ضرورت کو مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔ پنجاب میں جس طرز کا سستی روٹی منصوبہ چلایا گیا اس طرز کی اسکیم کے اثرات اور فائدے کے حوالے سے معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بے فائدہ رہا۔

معاشی تجزیہ کار ظفر موتی والا کا کہنا ہے کہ گندم کےحوالے سے اس طرح کی اسکیمیں متعارف کرانے کی ضرورت ہیں جو روٹی کی قیمت بارہ، پندرہ روپے سے کم کر کے چھ تا سات روپے پر لا سکیں تا کہ بنیادی ضرورت کی یہ جنس عام افراد کی پہنچ سے دور نہ ہوسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کو عام فرد کی روٹی تک سستے داموں رسائی یقینی بنانا اولین ترجیحات میں ہونا چاہیے۔

جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما فرید پراچہ کا پنجاب حکومت کے سستی روتی منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 2009 سے 2010 تک بینکوں سے قرضے لیے گئے۔ منصوبہ کے تحت روٹی دو کی نہیں بلکہ 70 روپے کی پڑتی تھی۔

تحریک انصاف رہنما یاسمین راشد نے صورتحال کا ذکر کیا تو کہا کہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جس کا نقصان عوام کو ہو۔

سستی روٹی منصوبے میں اربوں روپے ڈوبنے اور اپوزیشن کی کڑی تنقید کے بعد لیگی حکومت نے منصوبہ تو بند کردیا مگر اس سے ہونے والے نقصان کا ازالہ آج تک نہیں ہوسکا ہے۔


متعلقہ خبریں