خوش ذائقہ روٹی اور پن چکی : لازم و ملزوم ہیں

پن چکی سے آٹے پسوانے کا رواج اب بھی برقرار |humnews.pk

نصیرآباد: آج کے جدید دور میں روٹی پکانے کے لیے عام طور پر مشین سے پسے ہوئے آٹے کے استعمال کو ہی اہمیت دی جاتی ہے لیکن ابھی بھی کچھ پہاڑی علاقوں میں پن چکی سے آٹا پسوانے اور اس کی روٹی کھانے کا رواج باقی ہے۔ اس کی ایک مثال ہمیں ملتی ہے آزاد کشمیر کے علاقے نصیرآباد سے، جہاں لوگ دور دور سے پن چکی سے آٹا پسوانے آتے ہیں۔

نصیرآباد میں مالکان گندم لے کر آتے ہیں اور آٹا پسوا کر لے جاتے ہیں۔ خاص طور پر بزرگوں کی بڑی تعداد چکی سے پسا ہوا آٹا ہی پسند کرتی ہے جس کی وجہ اس کی افادیت ہے۔

ایک مقامی بزرگ نے ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے دانت اتنے مضبوط نہیں رہے اسی لیے وہ نرم روٹی کھانا پسند کرتے ہیں جو اس آٹے سے ہی بن پاتی ہے اسی لیے وہ یہاں آٹا بنوانے آتے ہیں۔

جب مکئی اور گندم کے پکنے کا موسم آتا ہے تو یہ پن چکی مسلسل چلتی ہے اور اپنا کام کرتی ہے جب کہ مزدور 12 سے زائد گھنٹوں تک کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک محنت طلب اورمشکل کام ہے لیکن آٹے بنانے کی اجرت نہایت کم ہے۔ یہاں پن چکی سے مکئی کا ایک من آٹا بنوانے کی قیمت صرف 200 روپے ہے۔ چکی والے ایک من آٹا پسوانے کے عوض پانچ کلو مکئی بھی بطورمزدوری لیتے ہیں۔

پن چکی کو گاؤں دیہات کی پہچان سمجھا جاتا تھا لیکن اب پانی کی کمی اور جدید طرز زندگی کے باعٹ یہ ختم ہوتی جارہی ہے مگر مقامی افراد آج بھی اسی آٹے کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں اور گندم پسوانے کے لیے پن چکیوں کا رخ کرتے ہیں۔

پن چکی:

پن چکی یعنی ایسی چکی جو پانی کےزور پر چلتی ہے اور جس کو نا بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور نا ہی کسی اور چیز کی۔ یہ مسلسل پانی کے زور سے اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ پن چکی سے تیارکردہ آٹے کے دلدادہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آٹا نہایت ذائقہ دار ہوتا ہے۔ یعنی ان کا کہنا ہے کہ لذیذ اورخوش ذائقہ روٹی کھانی ہے تو پن چکی سے آٹا پسوانا لازمی ہے۔

پن چکی کو عموما ایسی نہروں اور نالوں کے پاس نصب کیا جاتا ہے جہاں پانی کی مقدار زیادہ اوربہاؤ تیز ہو کیوں کہ منوں وزنی اور بھاری چکی کا پتھر پانی کے تیز بہاؤ سے ہی چل سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں