خواجہ سرا کمیونٹی کا ووٹر رجسٹریشن دوبارہ شروع کرنے اور مخصوص نشستیں فراہم کرنے کا مطالبہ

kawaja sira

کراچی:عام انتخابات کا تیسرا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا ہے، مگر کراچی کی خواجہ سرا کمیونٹی کو ان الیکشنز پر شدید تحفظات ہیں۔ خواجہ سرا کمیونٹی کو سب سے پہلا اور بڑا اعتراض اپنی کمیونٹی کی گنتی پر ہے۔ یوں تو ملک بھر کی خواجہ سرا تنظیمیں الگ الگ دعوے کرتیں اور اعدادو شمار بتاتی ہیں۔

لیکن 2017 کی مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں خواجہ سرا کمیونٹی کی تعداد 21 ہزار 774 ظاہر کی گئی تھی۔ کراچی میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم شہزادی رائے کو ڈیجیٹل مردم شماری پر بھی سخت اعتراض ہے کہ جس میں سندھ کے خواجہ سراؤں کی تعداد 3 ہزار ظاہر کی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کراچی کے رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی تعداد کا اندازہ کراچی کے سول اسپتال میں رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی اس تعداد سے لگایا جاسکتا ہے جو ایچ آئی وی اور ایڈز کی اسکریننگ کے لیے آتے ہیں، یہ تعداد 20 ہزار کے قریب ہے۔

شہزادی کے مطابق 2016 اور 2017 میں انٹیگریٹڈ بائیولوجیکل اینڈ بیہورل سرویلنس کی گئی تھی، اس میں واضح طور پر خواجہ سراؤں کی تعداد 50 ہزار سامنے آئی تھی۔

محکمہ بہبود آبادی سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں خواجہ سرا کمیونٹی کی مجموعی تعداد 2 ہزار 527 ہے۔ اسی طرح کراچی میں خواجہ سراوں کی تعداد 1497 بنتی ہے۔ یہ اعداد و شمار 2017 کی مردم شماری سے ہی لیے گئے ہیں ۔

خواجہ سرا کمیونٹی کو ان اعداد و شمار پر بھی اعتراض ہے۔ جینڈر انٹرایکٹو الائنس کی رپورٹ کے مطابق خواجہ سرائوں کی سندھ میں رجسٹریشن 38 ہزارکے قریب ہے۔

کراچی میں کمیونٹی کے 22 ہزار افراد رجسٹرڈ ہیں۔ جینڈر انٹر ایکٹیو الائنس سے وابستہ شہزادی رائے کا ماننا ہے کہ ایک شفاف مردم شماری کے ذریعے خواجہ سرائوں کی دوبارہ گنتی کی جانی چاہیے۔

دوبارہ ووٹر رجسٹریشن کا مطالبہ ، کیا خواجہ سرا تقسیم ہیں ؟

سب رنگ سوسائٹی کی بانی کامی سڈ کا کہنا ہے کہ 2018 میں جب ٹرانس جینڈر ایکٹ عمل میں آیا تو کافی لوگوں نے ایکس کارڈ بنوانا شروع کیے۔ یہ کارڈ ابھی بھی بن رہے ہیں۔

کامی کے مطابق اس میں ایک دو سال کا وہ وقفہ آیا جس میں ایک سیاسی جماعت نے آواز اٹھائی اور کہا کہ ان کے شناختی کارڈ نہیں بننے چاہییں۔ اس کے بعد کچھ ماہ کے لیے یہ کارڈ بننا بند ہو گئے تھے۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے بعد میں نے اسے سپریم کورٹ میں بطور پٹشنر اسے چیلنج کیا۔ اس پٹیشن کے بعد وفاقی شرعی عدالت کے احکامات معطل ہوگئے۔

کامی سڈ کہتی ہیں کہ سپریم کورٹ نے اس پر حکمِ امتناع دیا جس کے بعد خواجہ سرا اپنے کارڈ بنوا سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے واضح طور پر ہمیں کہا ہے کہ جن بھی افراد کے پاس ایکس کارڈ موجود ہیں وہ ووٹ ڈال سکتے ہیں جو لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ ان کے نام ووٹنگ لسٹ میں موجود نہیں انھوں نے خود کو رجسٹر نہیں کروایا ہو گا۔ ہماری کمیونٹی میں بہت سے خواجہ سرا تو اس بات سے بھی واقف نہیں کہ ووٹ کیسے دینا ہے اور اس کے لیے کیسے رجسٹر ہونا ہے۔

اس حوالے سے بندیا رانا خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کے لیے سالوں سے کام کررہی ہیں۔ وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بتائی گئی خواجہ سرائوں کی ووٹر رجسٹریشن کی تعداد سے متفق نہیں ہیں۔

بندیا کہتی ہیں کہ جب سے شریعت کورٹ میں ٹرانس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کو چیلنج کیا گیا ہے۔ خواجہ سرا کمیونٹی کے ایکس کارڈ بننا بند ہوگئے ہیں۔ مردم شماری میں ہماری تعداد ویسے ہی کم تھی۔

سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمیں حق رائے دہی سے محروم رکھا جارہا ہے۔ بندیا رانا نے مطالبہ کیا کہ ہمارے 15 ہزار سے زائد ووٹرز کو رجسٹر کیا جائے۔ وہ کامی سڈ کی بات سے غیر متفق ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم نے مرد اور عورت خواجہ سرائوں کو ووٹ ڈالنے کی ٹریننگ بھی دے رکھی ہے۔ ان کو الیکشن کے طریقہ کار کی بھی سمجھ بوجھ ہے۔

سندھ سے کوئی خواجہ سرا الیکشن میں امیدوار نہیں:

کراچی میں گزشتہ سال ہوئے بلدیاتی انتخابات میں پہلی بار خواجہ سرا کمیونٹی کو بطور امیدوار نمائندگی دی گئی تو ان کا حوصلہ بڑھا اور ان کو امید ملی کہ عام انتخابات میں بھی خواجہ سراؤں کی نمائندگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا، لیکن ایسا نہ ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ خواجہ سراؤں نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے عام انتخابات میں مخصوص نشستوں پر کوٹہ نہ ملنے کا شکوہ کیا۔

چاندی شاہ خواجہ سرا ہیں ، جو اب جماعت اسلامی کی نمائندگی کر رہی ہیں ، انہیں بلدیاتی انتخابات میں یہ موقع پہلی بار میسر آیا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کی نمائندگی کریں۔

چاندنی کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا کمیونٹی نے طویل سفر طے کیا ہے۔ جماعت اسلامی کا حصہ بن کے ان کا نظریہ اس سیاسی جماعت کو لیکر یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔

جماعت اسلامی سے کافی عزت ملی ہے۔ ان کا کہنا تھا اس بار پنجاب سے تو خواجہ سرا نمائندے الیکشن کا حصہ بنے ہیں مگر سندھ سے کسی خواجہ سرا نے کاغذات نامزدگی نہیں بھرے۔ لیکن انہیں امید ہے کہ مستقبل میں خواجہ سرا ناصرف نیشنل اسمبلی بلکہ سینٹ کا بھی حصہ ہونگے۔

شہزادی رائے کا کہنا ہے کہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ وہ بلدیاتی حکومت کا حصہ ہیں اور پیپلزپارٹی کا شکرگزار ہیں کہ ان کو یہ موقع دیا گیا۔ ساتھ ہی وہ عام انتخابات میں خواجہ سراؤں کی عدم شمولیت پر افسردہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2024 کے الیکشنز میں جن لوگوں کو اقتدار میں لایا جارہا ہے ان سے کون واقف نہیں ہے۔

خواجہ سرا بندیا رانا کا ماننا ہے کہ سندھ میں ایک عام آدمی کے لیے الیکشن لڑنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ 30 ہزار روپے کی خطیر رقم بھر کر الیکشن لڑنا اور پھر اس کی مہم کے اخراجات اٹھانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ خواجہ سرا بھی ان ہی مشکلات کا شکار ہیں۔

خواجہ سراؤں کے مسائل کا حل ہے کیا؟

جینڈر انٹرایکیٹیو الائنس کے نمائندگان کا ماننا ہے کہ ان کی درست گنتی سب سے پہلا قدم ہے۔ خواجہ سراؤں کی تعلیم پر توجہ دینا اور منصفانہ حقوق فراہم کرنا دوسرا اہم قدم ہوسکتا ہے۔

خواجہ سراؤں کی عام انتخابات میں سندھ سے عدم شمولیت پر موجودہ میئر کراچی مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے آگے بڑھ کر بلدیاتی انتخابات میں خواجہ سرا کمیونٹی کا کوٹہ مقرر کیا۔ آج ایوان میں بیٹھا ہر خواجہ سرا ہمارے وژن کی کامیابی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی 2024 اگلے انتخابات میں خواجہ سراؤں کو اسمبلیوں تک بھی لیکر آئے گی۔ ہمیں خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کو تسلیم کرنا ہوگا۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اسی لگن سے آگے بڑھنا ہوگا۔

ترجمان الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ووٹر رجسٹریشن کا عمل ختم ہوچکا ہے۔ اسے دوبارہ کھولنے کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔

خواجہ سرا کمیونٹی کے تحفظات اپنی جگہ لیکن اکثر خواجہ سرا جن کے کارڈ مردوں کی شناخت پر بنے ہوئے ہیں عین ممکن ہے کہ الیکشن ڈے پر ووٹ ڈالتے دکھائی دیں۔


متعلقہ خبریں