ایک اور سیاسی جماعت نے ’’بلے‘‘ کا انتخابی نشان مانگ لیا

عام انتخابات

ٹیکنالوجی موومنٹ پاکستان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے عام انتخابات  کیلئے ” بلے” کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کی درخواست کر دی۔

ٹی ایم پی نےبلے کے انتخابی نشان کے حصول کے لیے ایک اور رجسٹرڈ سیاسی جماعت نے الیکشن کمیشن سے رجوع کرلیا اور 8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات کے لئے پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا مانگ لیا۔

عمران خان سمیت دیگر کارکنان کے کاغذات مسترد

ٹی ایم پی نے الیکشن کمیشن سے کی گئی درخواست میں کہا کہ عام انتخابات میں ہمارے امیدوار حصہ لینا چاہتے ہیں، ہماری جماعت کو عام انتخابات کے لیے انتخابی نشان بلا الاٹ کیا جائے۔

جبکہ ٹیکنالوجی موومنٹ پاکستان نے ترجیحی فہرست میں دوسرا انتخابی نشان لیپ ٹاپ بھی مانگ لیا۔

اب پی ٹی آئی کو الیکشن جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا ، بیرسٹر علی ظفر

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ ”ہم عوام پاکستان پارٹی ”نے الیکشن کمیشن سے’’بلے‘‘ کا انتخابی نشان مانگ لیا تھا۔ ہم عوام پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل احمرزمان خان کا کہنا تھا کہ ہمارا انتخابی نشان تالہ تھا، گوشوارے جمع نہ کرانے پر انتخابی نشان تالہ واپس لے لیا گیاہے۔

لہٰذا الیکشن کمیشن سے استدعا ہے کہ ہمیں بلے کا انتخابی نشان الاٹ کیا جائے۔

احمر زمان کا کہنا تھاکہ ہماری پارٹی نے بلے کا انتخابی نشان پہلے مانگا تھا ہمیں ملنا چاہیے، الیکشن کمیشن ہماری پہلے سے جمع درخواست کو منظور کرے ہمیں آئین کے تحت یہ حق حاصل ہے، ہم نے الیکشن کمیشن سے استدعا کر رکھی ہے اور ہمیں الیکشن کمیشن پر پورا اعتماد ہے ہماری بات سنی جائےگی۔

عمران خان این اے 122 اور 89 سے الیکشن کیلئے نااہل ، یاسمین راشد کو اجازت مل گئی

واضح رہے کہ پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس پر محفوظ فیصلہ سنا دیا، پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بحال ہو گیا ہے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ کالعدم قرار  دیتے ہوئے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا، عدالت نے تحریک انصاف کو بلے کے انتخابی نشان سے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔

پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے ہیں کہ کبھی کوئی تو کبھی کوئی لاڈلا بن جاتا ہے۔

کیس کی سماعت پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی، جس میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض کرنے والے فریقین کے وکلا نے دلائل دیے۔


متعلقہ خبریں