مارشل لاء لگنے پر سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں ، پارلیمنٹ کچھ کرے تو حلف یاد آ جاتا ہے ، چیف جسٹس

چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق دائر 9 درخواستوں پر براہ راست سماعت جاری ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہماری کوشش ہو گی، آج کیس کا اختتام کریں، ایک کیس کو ہی لے کر نہیں بیٹھ سکتے، سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیس زیر التوا ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج اس قانون کا اثربالخصوص چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر ہو گا، اختیارات کو کم نہیں بانٹا جا رہا ہے، اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹسز پر بھی ہو گا، چیف جسٹس کا اختیار اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ججز سمجھتے ہیں پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ایسا نہیں سمجھتے۔

جسٹس فائز عیسیٰ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کی ملاقات

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کچھ لوگوں کا بھی خیال ہے اس قانون سے سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آ گئے، میں لفظ جنگ استعمال نہیں کرونگا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اب قانون بن چکا ہے، حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا، پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتا تھا یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت جب آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہے تو بات ختم ہو گئی، اگرکل پارلیمنٹ قانون بناتی ہےکہ بیواؤں کے کیسزکو ترجیح دیں، کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی؟

جسٹس فائز عیسیٰ کے بعدموجودہ ججز میں سے چارکو چیف جسٹس بننے کا موقع ملے گا

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب مارشل لاء لگتے ہیں، سب ہتھیارپھینک دیتے ہیں، اس کمرے میں بہت سی تصاویرلگی ہیں جو مارشل لاء آنے پر حلف بھول جاتے ہیں، مارشل لاء  لگے تو حلف بھلا دیا جاتا ہے،  پارلیمان کچھ کرےتو سب کو حلف یاد آجاتا ہے، مارشل لاء کے خلاف بھی تب درخواستیں لایاکریں، وہاں کیوں نہیں آتے؟ ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت نے کئی بار مارشل لا کی توثیق کی ہے، پارلیمنٹ نےکہا سپریم کورٹ کا اختیاربڑھا دیا گیا، پارلیمنٹ کہتی ہے انہوں نے ٹھیک قانون سازی کی، سپریم کورٹ کے 184 تین کےاستعمال سے ماضی میں لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔

سپریم کورٹ سے تاریخ لینے والا رجحان اب نہیں چلے گا، چیف جسٹس کا پیغام

چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ نظرثانی میں اپیل کاحق ملنے سےآپ کوکیا تکلیف ہے؟ اس پر وکیل حسن عرفان نے کہا کہ میرے قانون کی رسائی کا حق متاثر ہوگا، کل کو سماجی و معاشی اثرات  ہوں گے۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ مفروضوں کی نہیں ، حقیقت کی زبان جانتا ہوں، مولوی تمیزالدین سے شروع کریں یا نصرت بھٹو سے، انہوں نے کہا آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کرنا چاہو کرو،  پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہونے نہیں دے سکتے، پارلیمنٹ کی قدر کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فرد واحد نے اس ملک کی تباہی کی ہے، فرد واحد میں چاہے مارشل لاء ہو یا کوئی بھی،  ہمیں آپس میں فیصلہ کرنا ہے، ججز سے آپ کو کیا مسئلہ ہے،  ایک چیف جسٹس نے فیصلہ کیا، وہ ٹھیک ہے، زیادہ کریں توغلط ہے، یہ قانون ایک شخص کے لیے کیسے ہے، یہ بھی سمجھ نہیں آیا، سب بس پارلیمنٹ پر حملہ کر رہے ہیں، یہ دیکھیں قانون عوام کے لیے بہتر ہے یا نہیں۔

 

 


ٹیگز :
متعلقہ خبریں