توشہ خانہ کیس، چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت

اسلام آباد ہائیکورٹ (islamabad high court)

توشہ خانہ فوجداری کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت جاری ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کا آغاز ہوا۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کا دو رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے وکلا لطیف کھوسہ، شیرافضل مروت اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے سامنے معاملہ رکھا تھا کہ پہلے دائرہ اختیار دیکھا جائے۔ خواجہ حارث کا بیانِ حلفی عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ خواجہ حارث کے منشی کو عدالت میں درخواست دائر کرنے سے روکا گیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سے مخاطب ہوکر کہا کہ کھوسہ صاحب، ماتحت عدلیہ ہے غلطی ہوئی ہے لیکن ان کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔سپریم کورٹ کا آرڈر ہمیں موصول ہوا ہے، سپریم کورٹ نے آج سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کا کہا ہے۔

بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال

وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو ٹرائل کورٹ نے 3 سال کی سزا سنائی۔ صدر پاکستان نے 14 اگست کو قیدیوں کی چھ ماہ سزا معاف کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی 6 ماہ کی سزا معاف کی جا چکی ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا۔ الیکشن کمیشن کے پاس قانون کے مطابق کمپلینٹ دائر کرنے کا اختیار ہے۔ الیکشن کمیشن کمپلینٹ دائر کرنے کیلئے اپنے اختیارات تفویض کر سکتا ہے۔ یہ کمپلینٹ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے ذریعے دائر کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں کمیشن کی جانب سے کسی کو اتھارٹی نہیں دی گئی۔ یہ کیس سیکریٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے اتھارٹی کیلئے کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اتھارٹی پر سیکریٹری الیکشن کمیشن کے دستخط ہیں۔

اس دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے۔

لطیف کھوسہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہماری اپیل منظور کی۔ ہائیکورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کیلئے ٹرائل کورٹ کو بھیجی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو8 سوالات پر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔ ٹرائل کورٹ نے اُن سوالات کا جواب دیے بغیر اپنے پہلے آرڈر کو ہی درست قرار دیا۔

وکیل قتل کیس، سپریم کورٹ کا چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار نہ کرنے کا حکم برقرار

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل منظوری کا فیصلہ 4 اگست کی شام کو ملا۔ 5 اگست کو خواجہ حارث کے منشی کو اغوا کیا گیا، خواجہ حارث کا بیانِ حلفی موجود ہے۔ خواجہ حارث نے وجہ لکھی کہ کیوں وہ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش نہیں ہو سکے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کیس قابلِ سماعت ہونے پر دوبارہ دلائل سننے کا حکم دیا۔

لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر نوٹس جاری ہو چکا تھا۔ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا نہیں، اگر ہائیکورٹ نے نہیں روکا پھر بھی جج کو حتمی فیصلہ نہیں دینا چاہیے تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے دلائل مکمل کرنے کے بعد چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ امجد صاحب کیا آپ کو کچھ کہنا ہے؟ جس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ ‘کھوسہ صاحب میرے نکاح کا گواہ بھی ہے۔’ جس کے بعد عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کیا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔ حقِ دفاع بحالی کی درخواست اس عدالت کے سنگل بینچ کے سامنے زیر سماعت ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈویژن بینچ تو سپریم کورٹ اور سنگل بنچ کے درمیان سینڈوچ ہے۔ یہ عدالت اس وقت سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے۔ سزا معطلی کی درخواست پر عدالت میرٹس پر گہرائی میں نہیں جائے گی۔ یہ سوالات تو آئیں گے کہ ملزم کو حقِ دفاع ہی نہیں دیا گیا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے ہوگی۔


متعلقہ خبریں