بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال


چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں، درخواست وہاں ہی دائر ہوسکتی جس عدالت کی توہین ہوئی ہو، دائرہ اختیار کا معاملہ بھی ہائیکورٹ اپیل میں سن سکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں آج اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے وکیل لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست ہائیکورٹ کے فیصلوں کے خلاف ہے۔ درخواست گزار 2018 میں میانوالی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے ہر سال اپنے گوشواروں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل کے خلاف ریفرنس اسپیکر نے الیکشن کمیشن کو بھیجا۔ اس ریفرنس پر الیکشن کمیشن نے میرے موکل کے خلاف حکم دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں دائر کی ہیں۔ رکن اسمبلی ہر سال 31 دسمبر تک اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو جمع کرانے کا پابند ہے۔ ریفرنس میں اثاثوں سے متعلق جھوٹا ڈکلیئریشن جمع کرانے کا الزام لگایا گیا۔

دورانِ سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ کیس یہ نہیں ہے کہ چئیرمین پی ٹی آئی کیخلاف ریفرنس بھیجا جا سکتا تھا یا نہیں۔ آپ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف آئے ہیں۔ توشہ خانہ مرکزی کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے، کیا اس کو چیلنج کیا گیا؟

اس موقع پر جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ایک رکن اسمبلی کسی دوسرے کیخلاف شکایت درج کروا سکتا ہے؟ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میرے مطابق رکن اسمبلی شکایت درج نہیں کروا سکتا،ا سپیکر ریفرنس بھیجتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کا کیس تو ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف ہے شکایت کی قانونی حیثیت نہیں۔ ٹرائل کورٹ سے مقدمہ ختم ہوچکا اب کس کو ریمانڈ کیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا سزا کیخلاف مرکزی اپیل پر کیا اثر ہوگا؟

لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو گھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پر لانی ہوں گی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گر سکتی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی؟

جولائی میں ہونیوالی نیب ترامیم مشکوک اور عدالتی فیصلوں سے متصادم ہیں ، چیف جسٹس

جواب میں لطیف کھوسہ نے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست وہاں ہی دائر ہو سکتی جس عدالت کی توہین ہوئی ہو۔

لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ میر ے اور میرے موکل کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہوا ہے، ہم نے جولائی کے مہینے میں ہائیکورٹ کے احکامات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیے۔
ہم نے ٹرائل کورٹ کے دائرہ اختیار کو بھی چیلنج کیا تھا، سیکریٹری الیکشن کمیشن خود الیکشن کمیشن نہیں ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آپ لوگ کل ایک بجے سپریم کورٹ میں پیش ہوں۔ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں۔


متعلقہ خبریں