صدر کے دستخط کے بعد آفیشل سیکریٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل قانون بن گئے


صدر مملکت عارف علوی نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے۔ جس کے بعد دونوں بل قانون کی شکل اختیار کر گئے۔

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق 31 جولائی کو آرمی ایکٹ مشترکہ اجلاس میں منظور ہوا تھا، یہ بل صدر کو توثیق کے لیے یکم اگست کو ارسال کیا گیا تھا۔

گزشتہ قومی اسمبلی نے مدت ختم ہونے سے پہلے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی منظوری دی تھی۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل، حزب اختلاف کی بڑی جماعتیں آمنے سامنے آگئیں

خیال رہے کہ سینیٹ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پیش کرنے پر اپوزیشن کے ساتھ حکومتی اتحادی بھی برہم ہوگئے تھے اور پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے کئی بلوں کی کاپیاں پھاڑ دی تھیں۔ پاکستان بار کونسل کی جانب سے بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کی شدید مذمت کی گئی تھی۔

آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل کے مطابق کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ، ریاست کے خلاف کام ، ممنوعہ جگہ پر حملہ یا نقصان پہنچاتا ہے جس کا مقصد براہ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچانا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔

فوج کو بدنام کرنے پر 2 سال قید اور جرمانہ ہو گا ، آرمی ایکٹ ترمیمی بل سینیٹ سے منظور

آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت دستاویزات یا معلومات تک غیر مجاز رسائی حاصل کرنے والا مجرم تصور ہوگا، پاکستان کے اندر یا باہر ریاستی سکیورٹی یا مفادات کے خلاف کام کرنے والے کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملزم کا ٹرائل خصوصی عدالت میں ہو گا اور خصوصی عدالت 30 دن کے اندر سماعت مکمل کرکے فیصلہ کرے گی۔

آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا برطرفی کے دو سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا جبکہ حساس ڈیوٹی پر تعینات فوجی اہلکار یا افسر ملازمت ختم ہونے کے 5 سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے مطابق ملکی سلامتی اور مفاد میں حاصل معلومات کے غیر مجاز انکشاف پر سزا ہو گی۔


ٹیگز :
متعلقہ خبریں