کراچی، پانی کا شدید بحران، روایتی ماشکیوں کی چاندی


کراچی: شہر قائد میں پانی کی شدید قلت کے باعث روایتی ماشکیوں کی چاندی ہو گئی ہے اور معدومیت کے شکار پیشے سے وابستہ افراد یومیہ تقریباً ایک ہزار روپے تک کمانے لگ گئے ہیں۔

کراچی میں زیر زمین پانی کے استعمال پر معاوضہ ادا کرنا ہوگا

مؤقر انگریزی اخبار عرب نیوز کے مطابق کراچی میں پانی کی سخت قلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں قدیم طریقے سے پانی پہنچانے ہونے والے ماشکی دوبارہ بھرپور طریقے سے متحرک ہو گئے ہیں۔

واضح رہے کہ قدیم زمانے میں زیادہ تر لڑائیوں کے دوران جنگجوؤں اور مسافروں کو ماشکی پانی فراہم کیا کرتے تھے اور مشکیں جانوروں کی کھال سے تیار ہوتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پیشہ بھی معدومیت کا شکار ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق کراچی کو تقریباً 1200 ملین گیلن روزانہ پانی درکار ہے لیکن صرف 580 ملین گیلن پانی شہر کو دو مختلف ذرائع سے فراہم کیا جاتا ہے جس میں سے کچھ پانی ضائع بھی ہو جاتا ہے کیونکہ انفرا اسٹرکچر خستہ ہے۔

شہری انتظامی امور کے ماہر ڈاکٹر نعمان احمد نے اسی حوالے سے بتایا کہ کراچی کی تقریباً نصف آبادی کو کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی جانب سے فراہم کردہ پائپ والے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے  وہ متبادل ذرائع تلاش کرنے پر مجبور ہیں، نتیجتاً پانی کے ٹینکر اور محلے کے فلٹریشن پلانٹس فروغ پا رہے ہیں، بالکل اسی طرح ماشکیوں کو فروغ مل رہا ہے۔

کراچی: پانی کی قلت، ڈملوٹی کے کنوؤں کی بحالی کا فیصلہ

ماشکی دلدار نے اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ بہت بڑا ہے، ابھی عموماً گھروں تک پائپ والا پانی نہیں پہنچ رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ صبح سویرے پانی لانے کے لیے ایک یا دو ماشکیوں کو کرایہ پر لیتے ہیں لیکن جب ایک مرتبہ پائپ والا پانی پہنچ جاتا ہے تو ہماری روزی روٹی ختم ہو جاتی ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق مشکیں بنانے والے کاریگروں نے بھی بکرے کی کھال کی مشک کی بڑھتی ہوئی مانگ کی نشاندہی کی  ہے۔

محتاط اعداد و شمار کے تحت ماشکی روزانہ تقریباً 1,000 روپے ($3.48) کی اجرت کما لیتے ہیں، اس کے لیے وہ فی مشک 50 کلو تک پانی لے جاتے ہیں جس کے لیے طاقت اور مہارت دونوں درکار ہیں۔

پاکستان میں سیلاب اور ناقص واٹر مینجمنٹ

رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ماشکی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کام کرتے ہیں یا جب تک اس کا جسم جسمانی طور پر اتنا پانی اٹھانے کا دباؤ برداشت کرنے سے انکار نہ کر دے۔


متعلقہ خبریں