فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل، فل کورٹ کے معاملے پر فیصلہ محفوظ

ہائیکورٹ بار (highcourt bar)

فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس میں فل کورٹ بنانے کی حکومتی استدعا پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل نے فوجی تحویل میں 102 افراد کے ناموں کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر کہا کہ ہمارے سامنے فیصل صدیقی کی فل کورٹ کیلئے درخواست ہے۔ ایک درخواست خواجہ احمد حسین کی بھی ہے، فیصل صدیقی کے آنے تک خواجہ احمد حسین کو سن لیتے ہیں۔ جواد ایس خواجہ ایک گوشہ نشین آدمی ہیں، ان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ جواد ایس خواجہ اے پولیٹکل ہیں، وہ غیر سیاسی ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل خواجہ احمد حسین نے سوال کیا کہ آپ کا کیا موقف ہے؟ جس پر وکیل احمد حسین نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ مجھے میرے موکل سے ہدایات لینے کیلئے وقت دیا جائے۔

بھارت، منی پور میں جو ہوا اس نے دل دہلا دیا، چیف جسٹس کے ریمارکس

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست دیکھی ہے؟ ہم فل کورٹ کے معاملے پر آپس میں بحث کریں گے۔ درخواست گزاروں کی جانب سے فل کورٹ کی یہ پہلی درخواست ہے۔ بہتر ہوگا کہ باقی درخواست گزاروں سے بھی موقف لے لیا جائے۔

اس موقع پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ہے کہ اس کیس کے دوران کسی سویلین کا فوجی ٹرائل نہیں ہوگا۔ عدالتی نظیر ہے کچھ ججز سماعت سے معذرت کرلیں تو بقیہ ججز کا فل کورٹ بنایا جاسکتا ہے۔ جو حکومت کی جانب سے بینچ پر اعتراضات کیے گئے ان سے کوئی تعلق نہیں، 3 ججز نے کیس سننے سے معذرت کی اور وہ فل کورٹ کا حصہ نہیں ہوسکتے۔

دورانِ سماعت سینئر وکیل اور درخواست گزار اعتزاز احسن روسٹرم پر آگئے۔ انہوں نے کہا کہ درخواستوں کا تاخیر سے آنا کیس کے مقصد کو زائل کرنے کے مترادف ہے۔ مجھے اس بینچ اور سپریم کورٹ پر مکمل اعتماد ہے۔ جو لوگ ملٹری کسٹڈی میں ہیں ان کو جوڈیشل کسٹڈی میں دینے کے احکامات دیے جائیں۔

اس موقع پر وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ درخواستیں بنیادی حقوق سے متعلق ہیں اور سوال بھی بنیادی حقوق کا ہے۔ جو مخالف فریق کی جانب سے استدعا کی جارہی ہیں کیا ایسی استدعائیں کی جاسکتی ہیں؟ یہاں سوال ایک ہی ہے کہ سویلینز کا ملٹری کوٹس میں ٹرائل کیوں ہو؟ 102 افراد جو ملٹری کسٹڈی میں ہیں ان کے لواحقین کا کیا حال ہے کبھی سوچا ہے؟ عدالت سے استدعا ہے کہ یہ بینچ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے۔

فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستیں ناقابل سماعت قرار دی جائیں ، وفاق کا سپریم کورٹ میں تحریری جواب

اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری کسٹڈی میں افراد کو فوری طور پر جوڈیشل کسٹڈی میں دیے جائیں۔ یہ بہترین موقع ہے سپریم کورٹ فوجی عدالتوں سے متعلق ایک ہی بارفیصلہ کردے، ملکی تاریخ میں پہلی بار اختیار عدالت کے ہاتھ میں ہے۔

بعد ازاں سپریم کور ٹ نے فل کورٹ کی تشکیل کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اس حوالے سے کورٹ ایسوسی ایٹ  نے بتایا کہ اس کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا اور کیس سے متعلق کاز لسٹ جاری کی جائے گی۔


متعلقہ خبریں