قلعے اور مزار کا سنگ، خطہ پوٹھوہار کا دلکش رنگ


خطہ پوٹھوہار نہ صرف شہیدوں کا وارث بلکہ تاریخ کا امین بھی ہے۔سنگلاخ چٹانوں کے اس خطے میں مغل، ڈوگرہ اور سکھ راج کا ورثہ آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یوں تو خطہ پوٹھوہار میں روات، روہتاس، گری، اٹک کے قلعے موجود ہیں لیکن دو ندیوں کے ساتھ پہاڑی پر موجود قلعہ سنگھنی قابل دید ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان تاریخ اور قدرت کی رعنائیوں میں کھو جاتا ہے۔

ہم نے بھی اس قلعے کی سیر اور تاریخ کو پرکھنے کا فیصلہ کیا اور اسلام آباد سے سفر کا آغاز کیا۔ روات سے ہوتے ہوئے کلرسیداں پہنچے جہاں سے بیول جانے والا راستہ پکڑا اور گائوں سوئی چیمیاں قیام کیا۔ گائوں سوئی چیمیاں کے دوسری طرف چکڑالی شریف ہے۔راستے میں دورویہ سڑک ہے جو آگے جا کر سنگل رویہ ہوجاتی ہے لیکن سڑک پختہ بنی ہوئی ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف خوبصورت کھیت کھلیان اوردلکش نظارے دل کو موہ لیتے ہیں۔

قلعہ سنگھنی پہنچنے کےلئے سفرکا کلومیٹر کے حساب سے اندازہ لگایا جائے تو اسلام آباد سے 70 کلومیٹر اور راولپنڈی کی تحصیل گوجرخان سے 25 کلومیٹر دور پڑتا ہے۔ قلعہ کی لوکیشن بیول کے قریب گائوں سوئی چیمیاں میں واقع ہے۔یہاں نہ تو بلند وبالا عمارتیں ہیں نہ شہروں جیسی تیز دوڑتی زندگی۔ بس سکون اور دیہات کے دلفریب مناظر ہیں۔ قلعے سے گائوں سوئی چیمیاں اور ڈھوک لاس کے کچے پکے گھروں کا نظارہ سحرزدہ کردیتا ہے۔

مضبوطی سے قدم جمائے بلند فصیلیں اور حضرت صاحبزادہ عبدالحکیم کے مزار کا سفید گنبد تاریخی ورثے کا دورسے پتہ دیتا ہے۔قلعے تک پہنچنے کےلئے ایک چھوٹی سڑک ہے جو قلعے کی دیواروں کے ساتھ بنائی گئی سیڑھیوں تک لے جاتی ہے۔یہ سیڑھیاں قلعے کے داخلی راستے تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔سیڑھیوں کے داخلی راستے پرنصب سنگ مرمر پرحضرت صاحبزادہ عبدالحکیم کی سوانح عمری سے متعلق تحریر درج ہے جو موجودہ سپیکرقومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے 1996 نے لکھوائی۔

قلعے کے اندر داخل ہوتے ہی حضرت صاحبزادہ عبدالحکیم کے مزاراور ساتھ موجود مسجد پر نظر پڑتی ہے۔ دوصدیوں پرانا یہ قلعہ مغلوں نے بنایا پھر ڈوگروں اورسکھوں نے اس پر راج کیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قلعہ نگرانی اور قیدیوں کو رکھنے کےلئے استعمال کیا جاتا تھا۔پہاڑی پر واقعہ اس قلعے کی تعمیر میں پہاڑی پتھروں کا ہی استعمال کیا گیا۔دیواریں کہیں کہیں خستہ حال لیکن آج بھی مضبوط کھڑی ہیں۔

قلعے کے 4 بڑے اور ایک چھوٹا برج ہے۔دیواروں میں روشندان اور بندوق لگانے کےلئے سوراخ رکھے گئے ہیں۔صحن میں برگد کا قدیم درخت بھی اپنے اندر کئی کہانیاں چھپائے ہوئے ہے۔ ایک طرف فرش میں یہ چھوٹا سوراخ نیچے موجود ندی سے پانی لانے کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔نیچے ندی میں گرمیوں کے دنوں میں لوگ نہانے کےلئے بھی آتے ہیں۔

حضرت صاحبزادہ عبدالحکیم کے مزار کی وجہ سے اس قلعے کو قلعہ سنگھنی شریف کہا جاتا ہے۔حضرت صاحبزادہ عبدالحکیم کا تعلق عراق کے شہربغداد سے تھا۔ حضرت صاحبزادہ عبدالحکیم کا تعلق دینی گھرانے سے تھا۔وہ بغداد سے ایران آئے پھر ہندوستان۔ جہاں آپ کی ملاقات حضرت بابا جی مرید خان المعروف میاں حاجی بگا شیر سرکار سے ہوئی۔ ان سے آپ کو ظاہری و باطنی بیعت کا شرف حاصل ہوا اور وہیں سے آپ کو ولایت کا درجہ حاصل ہوا۔

آپ نے اپنی رہائش کےلئے گائوں چکڑالی شریف کو منتخت کیا۔اور مختلف علاقوں میں چلہ کشی شروع کردی۔لوگ آپ کی زیارت کےلئے دور دور سے چکڑالی شریف آتے۔جب آپ دارفانی سے کوچ کرگئے توآپ کو چکڑالی شریف میں ہی دفن کیا گیا۔مزار کے ساتھ نصب سنگ مرمر پر درج تاریخ بتاتی ہے کہ 50 سال بعد آپ نے اپنے فرزند حضرت صاحبزادہ سید محمد صاحب المعروف سخی سرکار کو رات خواب میں آکر فرمایا کہ مجھے یہاں سے قلعہ سنگھنی لے چلو۔

اس وقت قلعہ خالی ہو چکا تھا اور ادھر دوسری طرف گائوں سوئی چیمیہ کی چیمہ قوم کے لوگوں کو بھی رات خواب میں ارشاد فرمایا کہ مجھے یہاں سے نکال کرقلعہ سنگھنی لے چلو۔دوسرے دن لوگ حضرت صاحبزادہ سید محمد صاحب کے پاس آئے اورساراماجرا بیان کیا تو حضرت صاحبزادہ سید محمد صاحب نے بھی لوگوں کو اپنے خواب کے بارے میں بتایا۔

اس کے بعد حضرت صاحبزادہ عبدالحکیم کو چکڑالی شریف سے قلعہ سنگھنی میں دفن کردیا گیا۔جہاں آپ کا مزار عقیدت مندوں کے دلوں کو منوراورقلبی سکون فراہم کررہا ہے۔ لوگ دوردورسے مزار پر حاضری کےلئے آتے ہیں۔

مزار کی تعمیر میں ماربل کا استعمال کیا گیا ہے کہ اس میں داخل ہونے کے تین محرابی دروازے ہیں۔مزار پر ایک گنبد اورکونوں پر چار مینار تعمیر کیے گئے۔گنبد کی بنیاد کو کاشی کے کام والی ٹائلز سے سجایا گیا ہے۔مزار کا گنبد قلعے کی فصیل کے اوپر سے نظر آتا ہے۔مزار کا اندرونی حصہ جدید پوٹھوہاری طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔صاحبزادہ عبدالحکیم کے مریدوں نے مزار کے ساتھ مسجد بھی بنوائی جس کا خیال صاحبزادہ عبدالحکیم کے عقیدت مند رکھتے ہیں۔

قلعہ سنگھنی تک جانے کے کےلئے راولپنڈی کی 2 تحصیلوں گوجرخان اور کلرسیداں سے راستے جاتے ہیں۔اسلام آباد یا راولپنڈی سے آنا ہو تو براستہ روات کلرسیداں کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس پرکشش مقام کی دیکھ بھال سے سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

 


متعلقہ خبریں