سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم آئین کی 50ویں سالگرہ منا رہے ہیں،آئین صرف پارلیما ن کے لیے نہیں سب کا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس کا وہ مستحق ہے،آئین کسی ایک پارٹی کے لیے نہیں یہ کتاب سب کی ہے۔

ہم کبھی دشمنوں سے اتنی نفرت نہیں کرتے جتنی ایک دوسرے سے کرتے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ آئین 10اپریل 1973کو مشترکہ طور پر اپنایا گیا اور قوم کو پیش کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان جدوجہد کے بعد قائم ہوا، آزاد ی کے بعد ہمیں آئین کی ضرورت تھی، آئین میرے لیے صرف کتاب نہیں اس میں لوگوں کے حقوق ہیں۔

ہم آئین کی تشریح کر سکتے ہیں،جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تووہ زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرتی، انہوں نے کہا کہ دسمبر 1971 میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا، اس کے بیج بوئے گئے۔

حکومت کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لینے کا فیصلہ

بویا گیا بیج جب پروان چڑھا اس نے پوری قوم کے ٹکڑے کر دیے،جو کام ہم آج کرنے بیٹھے ہیں، اس کے اثرات صدیوں بعد بھی نکلیں گے۔

ان کا کہناتھاکہ نفرتوں کی وجوہات ہوتی ہیں، چھوٹی بات پر گھر برباد ہوجاتے ہیں،چھوٹی بات پر پانی نہ ڈالیں تو ایسے مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔

جسٹس قاضی قاضی فائز عیسی کا کہنا تھاکہ 1971میں قوم کا سر جھکا ہوا تھا، شرمندہ قوم تھی،فیڈرل کورٹ میں جسٹس منیرنے ملک ٹوٹنے کا بیج بویا، دو چار باتیں غیر مناسب ہوئیں، نظریں نہیں چرانا چاہئیں۔

1940سے 1947کی پیارومحبت کتنی جلدنفرتوں میں تبدیل ہوئی،انہو ں نے پاکستان ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ قرار دیا۔24فروری 1975کو نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگادی گئی،

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ جانے پر وضاحت جاری کردی

نیشنل عوامی پارٹی کے ریفرنس پر سپریم کورٹ نے کہا پابندی صحیح ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہناتھاکہ 1977میں الیکشن ہوئے، الزام لگا کہ صاف شفاف نہیں ہوئے، ایک شخص پوری قوم پر مسلط ہوگیا اور 1988 تک حکومت کی۔

جسٹس قاضی فائز کاکہناتھاکہ عدالتوں میں کیسز آئے، ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت سے سزائے موت سنائی گئی،اصل میں آمرخود کو دھوکادے رہا ہوتاہے پھر وہ ریفرنڈم کراتاہے۔

ان کاکہناتھاکہ 58ٹوبی کی شکل میں ایک اور نفرت کا بیج بویاگیا،آئین میں شق 58ٹوبی ڈال کر اپنے لیے تحفظ حاصل کیاگیا،کہاگیا تب مارشل لا ہٹاؤں گا جب 8ویں ترمیم منظور کروگے، زبردستی 8ویں ترمیم منظور کرائی گئی تب جاکر مارشل لا ختم کیاگیا،غلط فیصلہ غلط ہی رہے گا اگرچہ اکثریت کا ہو۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رضاکارانہ طور پر اپنے، اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر کردیے

تاریخ ہمیں 7بار سبق دے چکی ہے با ت تب ہے جب ہم خود سیکھیں،غلام اسحاق خان نے 58ٹوبی کا استعمال 2بار کیا،آئین پر بہت وار کیے گئے یہ توآئین کا حوصلہ ہے،آئین بہت وار کی زد میں آیا لیکن آج بھی کھڑاہے،آئین کی شکل و صورت بگاڑ دی گئی تھی۔

پاکستان میں کئی بار تاریخ دہرائی گئی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہناتھا کہ جنرل ایوب سے ملک سنبھالا نہیں گیا انہوں نے ملک ایک اور جنرل کے حوالے کیا۔

ہم نے حلف لیاہے کہ ہم آئین کادفاع کریں گے،ذاتی رائے کی نہیں اہمیت توآئین کی ہوتی ہے،آئین کا ہم پر زیادہ بوجھ ہے،شفاف الیکشن کے لیے نگران حکومتوں کا تصوردیاگیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہرچیز کااپنی جگہ پر ہونا لازمی ہے،عدالتیں توانصاف کے لیے ہی ہوتی ہیں،ہر کوئی سر ہلائے تو ڈکٹیٹر شپ لگے گی،آئین میں 184تین کو سوموٹوکہا جاتا ہے،آئین میں سوموٹو کا لفظ استعما ل ہی نہیں ہوا۔

قاضی فائز عیسیٰ کی پیدل سپریم کورٹ آمد، ویڈیو وائرل

ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم 2010میں آئی تو آئین کی شکل بگاڑ دی گئی تھی، جب عدالت بیٹھتی ہے تو اس کو سپریم کورٹ کہا جاتاہے،سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہیں،میرے دوستوں کی رائے ہے کہ سپریم کورٹ کامطلب چیف جسٹس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سے جج بناہوں کبھی گزارش نہیں کی کہ اس بینچ کا حصہ بنا دیں یا اس بینچ کا،بلوچستان میں چیف جسٹس تھا تو کیسز رجسٹرارمقرر کرتے تھے،عدلیہ کی بات نہیں کررہامگر بہتر ہے متحد ہو کر سب کی رائے سنیں۔

میرے پاس جب کیس آتا ہے تو 3عدالتوں سے ہوتاہوا آتا ہے،انگلستا ن کے ایک جج نے مجھ سے سوال کیا کہ سوموٹو کیاہوتاہے،میری رائے میں 184/3کا اختیار سپریم کورٹ کاہے، میرے دوستوں کی رائے ہے یہ اختیار صرف چیف جسٹس استعمال کرسکتے ہیں،پہلی با رالیکشن سے متعلق ایسا وقت آیا ہے مگر میں رائے نہیں دینا چاہتا۔


متعلقہ خبریں