اسلام آباد: عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما زاہد خان کا کہنا ہے کہ ہمیں قومی سلامتی پالیسی کا تعین کرنا ہو گا۔
ہم نیوز کے پروگرام بڑی بات میں گفتگو کرتے ہوئے زاہد خان کا کہنا تھا کہ چند روز قبل سابق وزیر اعظم نے ممبئی حملوں سے متعلق متنازع بیان دیا تھا، ان پرغداری کا مقدمہ چلانے کی بات کی گئی تھی، سابق صدر مشرف نے متنازعہ کتاب لکھی تو انہیں دباؤ میں لا کر باہر بھیج دیا گیا۔
میزبان عادل شاہ زیب کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک جنرل کو جی ایچ کیو طلب کیا گیا اور دوسرے کو باہر بھیج دیا گیا، کیا یہ ملکی سلامتی کے منافی نہیں ہے؟ کیا مشرف کو نہیں طلب کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت الیکشن ہمارے سر پر ہیں، ہمیں اندرونی اور بیرونی خلفشار کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنرل اسد درانی کے خلاف کورٹ آف انکوائری کی رپورٹ عوام کے سامنے لائی جائے گی یا نہیں، اگر نہیں تو ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ حقیقت کیا ہے کیونکہ مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے کتاب نہیں پڑھی۔
دفاعی تجزیہ نگار ایئر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ آپ سے رازوں کا امین ہونے کا تقاضہ کرتا ہے، آپ حاضر سروس ہیں یا ریٹائرڈ، آپ کے لیے کچھ قوانین وضع کر دیے جاتے ہیں، آپ کو ان کے مطابق ہی چلنا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کےخلاف جاتے ہیں تو آپ کو سزا کے عمل سے گزرنا ہو گا۔
پاکستان کے نئے نگراں وزیر اعظم کے بارے میں بات کرتے ہوئے شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ شفاف الیکشن ہونے چاہیئں تو یہ نگراں وزیراعظم اور الیکشن کمیشن کی مشترکہ ذمہ داری ہے، انتظامی ڈھانچے کو ایکشن میں آنا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کو انتخابات کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ماحول سازگار بنانا ہو گا۔
نگراں حکومت کو درپیش چیلنجز پر بات کرتے ہوئے شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ اگر نگراں حکومت کو سیکیورٹی حدشات ہیں تو ہماری ایجنسیز اور پولیس چوکنا ہے، ضرورت پڑنے پر رینجرز سے بھی مدد لی جا سکتی ہے، رینجرز بھی ہماری سیکیورٹی کا حصہ ہیں۔
پلڈاٹ کے صدر احمد محبوب خان نے نگراں حکومت کے چیلنجز سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیر اعظم کے سامنے ایک ہی چیلنج ہے کہ ان کے دور اقتدار میں فری اینڈ فیئر الیکشن ہو جائیں۔