نگران حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا، کوشش ہے کل فیصلہ سنا دیں، چیف جسٹس

سپریم کورٹ (supreme court)

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کےخلاف ازخود نوٹس کیس میں درخواست گزاروں کے وکلا نے دلائل مکمل کر لیے ہیں کل بابراعوان دلائل دیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نگران حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنا دیں۔عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ پرہے۔ ترجیح ہے کہ صرف اسی نقطے پرہی فیصلہ ہو۔ہم پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں۔عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔

عدالت نے صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کاجائزہ لینا ہے۔ پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے انفرادی درخواست گزارسننے کی استدعا مسترد کی۔

رضا ربانی نے سپیکرکی رولنگ کالعدم قرار دیکراسمبلی کوبحال کرنے کی استدعا کے ساتھ ڈپٹی سپیکرکی بدنیتی پر دلائل دیتے ہوئے قومی سلامتی کمیٹی کےمنٹس اورخط طلب کرنے کی استدعا کی۔

سرپرائز: وزیراعظم عمران خان بچ گئے،تحریک عدم اعتماد کی قرارداد مسترد

رضا ربانی نے کہا کہ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کواستثنی حاصل ہوتا ہے تاہم اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل95(2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے ،جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لاء ہی قرار دیا جا سکتا ہے،سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیرآئینی ہے، اٹھائیس مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی، ،ڈپٹی سپیکر نے رولنگ پڑھی اور تمام ارکان کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا۔

ڈپٹی سپیکر نے یہ بھی اعلان نہیں کیا تھا کہ تفصیلی رولنگ جاری کرینگے، ڈپٹی سپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا،ڈپٹی سپیکر کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ، انہوں نے تحریری رولنگ دیکر اپنی زبانی رولنگ کو غیر موثر کر دیا اس لئے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئین کے خلاف ہے۔

رضا ربانی نے مزید کہا کہ آئین میں وزیراعظم کو ہٹانے کا طریقہ کار درج ہے، وزیراعظم استعفی دے سکتے ہیں،اگر اکثریت کھو دیں تو تحریک عدم اعتماد پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے،اگر قرارداد پارلے منٹ میں آ جائے تو وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے،عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیراعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے، صدر مملکت ازخود بھی وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہ سکتے ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کر سکتے،اگر تحریک عدم اعتماد لانے والے ممبران اسے واپس لے لیں تو ایسا ہو سکتا ہے، جب تحریک عدم اعتماد ٹیبل ہو جائے تو اس پر ووٹنگ کرانا ضروری ہے،آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو استثنی حاصل ہوتا ہے،سپیکر کارروائی چلانے کیلئے جو فیصلہ کرے اسے تحفظ حاصل ہوگا،آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا، ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل 5 کی تشریح کرکے ارکان پر اطلاق کردیا۔

رضا ربانی نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ کیا اسپیکر عدالتی فائیڈنگ کے بغیر رولنگ دے سکتے تھے،وزیر اعظم نے اپنے بیان میں تین آپشن کی بات کی،اس پراسٹبلشمنٹ نےتردید کی، اس لئے عدالت سپیکر کی رولنگ غیرآئینی قرار دے۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے، عدالت سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیکر اسمبلی کو بحال کرے۔

مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیئےتوجسٹس منیب اخترنےکہاکہ تحریک عدم اعتماد پرکب کیا ہونا ہے یہ رولزمیں ہے۔آئین میں نہیں اگرکسی وجہ سے تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ آٹھویں روزہوتوکیاغیرآئینی ہوگی؟

مخدوم علی خان بولے کہ آٹھویں روزووٹنگ غیرآئینی نہیں،ٹھوس وجہ ہوتو آرٹیکل 254 کاتحفظ حاصل ہو گا۔اسمبلی رولزآئین کےآرٹیکل 95 سےبالاترنہیں۔عدم اعتماد کو ارکان کی حمایت پر اسپیکر نے عدم اعتماد کی اجازت دی۔ اس کے بعد 161 میمبرز کو موجود ہونےکے بارے میں آگاھ کیا گیا۔عدم اعتماد پر مزید ماروائی 31 مارچ تک ملتوی کردیا گیا۔جب کہ رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، 31 ماچ کو قراداد پر بحث نہیں کرائی گئی اور تین اپریل تک اجلاس ملتوی کیا گیا اس دن عدم اعتماد پرووٹنگ ہونی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولزمیں ہے۔آئین کورولزکے ذریعےغیرموثرنہیں بنایا جاسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریماکس دیے کہ اصل سوال صرف ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کاہے۔ کیاعدالت ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کاجائزہ لےسکتی ہے؟ اس نقطے پرمطمئن کریں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے واضح کیا کہ عدالت فی الحال صرف آئینی معاملات کو دیکھنا چاہتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق سات دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے، اگر کسی وجہ سے ووٹنگ آٹھویں دن ہو تو کیا غیرآئینی ہوگی؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ آٹھویں دن ووٹنگ غیرآئینی نہیں ہوگی،مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ کی ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا،ڈپٹی سپیکر کو تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں،اسمبلی رولز آئین کے آرٹیکل 95 سے بالاتر نہیں ہو سکتے۔

وکیل نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں، اسمبلی میں ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہو سکتی، ججز کنڈکٹ پر بات نہ کرنا آئین اور اسمبلی قواعد کا حصہ ہے،اسمبلی کے رولز آئین پر عملدرآمد کیلئے بنائے گئے ہیں، ججز کنڈکٹ پر بات کرنے والا رکن آرٹیکل 68 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا، آئین کی خلاف ورزی کرنے والے رکن کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 95 میں صرف تحریک عدم اعتماد اور اس پر ووٹنگ کا ذکر ہے،تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے تمام طریقہ کار اسمبلی رولز میں ہے۔

وکیل نے کہا کہ اکتیس مارچ اور تین اپریل کے قومی اسیمبلی کے اجلاس کے منٹس ھمارے پاس نہیں اس لئے اس پر بحث نہیں کرونگا جس پر چیف جسٹس نے 31 مارچ اور تین اپریل کی کاروائی کے منٹس اور ڈپٹی اسپیکر کا آرڈرعدالت میں پیش کرنے کے لئے سپیکر کے وکیل نعیم بخاری کو ھدایت کی۔

وکیل نے کہا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ سپیکر کے علاوہ پورا ایوان وزیراعظم کیخلاف ہو،کیا ایوان خلاف ہو اور سپیکر پھر بھی عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے؟ کیا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری سے پہلے اسکی وجوہات دیکھی جا سکتی ہیں؟ تحریک عدم اعتماد کیلئے وجوہات بتانا ضروری نہیں ہے،کیا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری سے پہلے اسکی وجوہات دیکھی جا سکتی ہیں؟

وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے وجوہات بتانا ضروری نہیں ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20% ارکان کا ہونا ضروری ہے، اگر 20% منظوری دیں لیکن ایوان میں موجود اکثریت مخالفت کرے تو کیا ہوگا؟

وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو اس پر ووٹنگ ضروری ہے، آئین کو رولز کے ذریعے غیر موثر نہیں بنایا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے،وکیل نے جواب دیتےہوئے کہا کہ وزیراعظم برقرار رہیں گے یا نہیں فیصلہ ایوان ہی کر سکتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکہ اصل سوال صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا ہے کیا عدالت ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے؟ پہلے اس نقطے پر مطمئن کریں کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ صرف قواعد کی خلاف ورزی نہیں، غیرآئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے؟

وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سپیکر کی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے، ایک شخص ایوان کی اکثریت کو سائڈ لائن نہیں کر سکتا،عدالت غیر قانونی اور آغیر آئینی اقدام پر جوڈیشل نظر ثانئ کر سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی اپنے ایوان کے ماسٹرز ہیں،اختیارات کی تقسیم بھی آئین کی گئی ہے ۔

وکیل نے جواب دیا کہ عدالت کے سامنے چھ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا ہے، عدالتی فیصلے آرٹیکل 69 کے دائرہ اختیار کو واضع کرتی ہے، جبکہ سپیکر نے رولنگ کی تصدیق کی ہے، لیکن اس دوران معلوم نہیں کہ سپیکر نے اختیارات ڈپٹی سپیکر کو منتقل کیے تھے یا نہیں۔

جسٹس اعجازلا حسن نے کہا کہ نعیم بخاری اس نقطے پر عدالت کی معاونت کرینگے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کا فوکس صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر ہے، عدالت کی ترجیح ہے کہ صرف اس نقطے پر ہی فیصلہ ہو،صرف دیکھنا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے یا نہیں،عدالت ریاستی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی،عدالت نے صرف آئینی اور قانونی اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے، عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی،تمام فریقین کو کہیں گے کہ اس نقطے پر ہی فوکس کریں۔

جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ عدالت فی الحال صرف آئینی معاملات کو دیکھنا چاہتی ہے۔ وکیل نے کہا کہ عدالت چاہے تو حساس اداروں سے بریفنگ لے سکتی ہے۔غیرآئینی اقدامات کو آئینی استحقاق حاصل نہیں ہو سکتا،عدالت میں قانونی نکات ہی اٹھائوں گا،حساس ادارے کے سربراہ سے بریفننگ چیمبر میں لی جا سکتی ہے،سابق چیف جسٹس کو قائمقام چیف جسٹس بنانا عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے،رولنگ کالعدم ہوئی تو اسمبلی کی تحلیل بھی ختم ہو جائے گی،عمران خان کو عبوری وزیراعظم بنانا بھی آئین کے مطابق نہیں۔

سپریم کورٹ بار کے وکیل نے کہا کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ میں سپیکر کا کوئی کردار نہیں ہوتا،سیکرٹری اسمبلی اور عملہ گنتی کرتا ہے اور سپیکر اعلان کرتا ہے سپیکر کا کردار عام قانون سازی میں ہوتا ہے جہاں اراکین کی آواز سے اکثریت کا فیصلہ ہو۔

سندھ بار کونسل کے وکیل نے کہا کہ سپیکر صرف پروسیجرل معاملے پر اختیار استعمال کر سکتا ہے،سپیکر ممبران کی مرضی سے کسی بل کو مسترد کر سکتا ہے،اگر کوئی بیرونی سازش تھی تو سپیکر بحث کیلئے تحریک منظور ہی نہ کرتا،سپیکر کسی بھی بل یا تحریک کو غیر اسلامی کہہ کر مسترد کر سکتا ہے،ممبران اسمبلی کو غیر ملکی ایجنٹ کہا گیا ،فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے رولنگ کا مطالبہ کیا،سپیکر کسی صورت آئین کی تشریح کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔

نیئر بخاری کے وکیل شہباز کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جس قسم کے حالات بنائے گئے ہیں کوئی بھی غیرآئینی اقدام ہو سکتا ہے مجموعی طور پر مخدوم علی خان کے دلائل اپنا رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آگاہ کریں کہ پارلیمان کس قسم کی تحریکیں منظور کر سکتی ہے تمام تحاریک کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں،عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی،سپریم کورٹ نے کچھ معاملات میں پارلیمنٹ کی کاروائی میں مداخلت کی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امتیاز صدیقی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ میں سابق وزیر اعظم کا وکیل ہوں جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عمران خان وزیراعظم ہی نہیں تو انکی نمائندگی کیسے کر رہے ہیں۔

عدالت میں سینٹر اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ پنجاب میں صورتحال بہتر نہیں ہے ایڈوکیٹ جنرل سے بیان حلفی لیا جائے کہ وہاں وزیر اعلی کے الیکشن کب ہونگے۔

چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ ھم جاننا چاھتے ہیں کہ وہاں کب الیکشن ہونگے،پنجاب میں جو صورتحال پیدا ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ اسیمبلی کے اندر اور باھر لوگوں کو زبردستی رکھا گیا ہے وہاں پر اختیارات کا استعمال اسپیکر کا ہے۔آئین کے تحت اسپیکر نے استعفی دیا ہواہے، اس پر ضرور دوبارہ الیکشن ہوگا۔ وہاں جو حالات خراب ہوئے اس پر انکوائری کروائیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کی طرف سے عدالت میں تین نکات پر دلائل دونگا بھتر ہوگا کہ سماعت کل تک ملتوی کی جائے۔۔ میں سبسے زیادہ متاثر فریق ہوں، میرے 22 میمبر یہاں اور 40 لاھور میں میمبر کو یرغمال بنایا گیا ہے جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل صاحب اپنے مسائل ھمارے گلے میں کیوں ڈال رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آُپ دلائل کے لئے کتنا وقت لینگے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ میری زندگی کا اہم ترین کیس ہے، قومی اہمیت کا کیس ہے عدالت کی تفصیلی معاونت کرنا چاہتا ہوں۔

جسٹس اعجازلا حسن نے کہا کہ وقت کم ہے لیکن جلد بازی میں بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے،نوازشریف کیس میں اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگران حکومت بن چکی تھی، عدالت نے نوازشریف کیس میں ایک ماہ بعد فیصلہ سنایا تھا۔

سینیٹر اعظم نزیر تارڑ نے کہا ایڈووکیٹ خدشہ ہے کہ وزیراعلی کا الیکشن شاید کل بھی نہ ہو،تین اپریل کو اسمبلی میں شدید جھگڑا ہوا جس پر اجلاس ملتوی ہوا،چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی جس ایجنڈے کیلئے طلب ہوئی وہ ہونی چاہیے۔

جس کے بعد عدالت نے کل دلائل دینے والے وکلا سے تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے سماعت دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔


متعلقہ خبریں