کورونافنڈز کہاں گئے؟13لاکھ کے کیل،6 کروڑ کا کھانا

کورونافنڈز کا خرچ: کیلوں کی خریداری 13 لاکھ، 23 دنوں میں 6 کروڑ کا کھانا

کوئٹہ: عالمی وبا قرار دیے جانے والے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے فراہم کردہ خصوصی فنڈز سے لوڈو، کرکٹ بیٹ، گیند، فٹبال اور تاش نہ صرف خریدے گئے بلکہ قرنطینہ مراکز میں ٹینٹ میں کیل لگانے پر بھی 13 لاکھ روپے خرچ کردیے گئے۔ کورونا خصوصی فنڈز سے لاکھوں ماسک خریدے گئے جن کی قیمت فی کس 800 روپے ادا کی گئی۔

پاکستان میں کورونا سے مزید 81 افراد جاں بحق

یہ انکشاف ایک خلیجی ویب سائٹ نے کیا ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں نے کورونا فنڈز کے بیجا استعمال اور مہنگے داموں اشیا کی خریداری کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ حکومتی مؤقف ہے کہ خریداری عام حالت میں نہیں بلکہ ہنگامی صورتحال میں کی گئی تھی اور جس وقت خریداری کی گئی تھی اس وقت تمام اشیا کی مارکیٹوں میں قلت تھی۔

بلوچستان اسمبلی میں کورونا کی پہلی لہر کے دوران فروری 2020 سے جون 2020 تک پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی جانب سے خرچ کیے گئے ایک ارب 80 کروڑ روپے کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر کی جانب سے پیش کردہ 11 صفحات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فروری 2020 سے جون تک کے درمیانی عرصے میں محکمہ خزانہ بلوچستان نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے دو ارب 23 کروڑ روپے جاری کیے جس میں سے ایک ارب 80 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔

پی ڈی ایم اے کی جانب سے خرچ کی گئی رقم کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس سے متاثرین کے لیے طبی سہولتوں کی فراہمی کی گئی، قرنطینہ مراکز میں کھانے پینے کی اشیا فراہم کی گئیں، رہائش کی سہولتیں دی گئیں، تعمیرات ہوئیں اور ٹرانسپورٹیشن کے علاوہ ڈاکٹروں و طبی عملے کو آلات کی فراہمی سمیت کل 166 اشیا کی خریداری  کی گئی۔

کل 11 صفحات پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا فنڈز سے 30 کرکٹ بیٹ، 60 کرکٹ بال، 24 فٹبال، 40 عدد گڑیا، 24 لڈو اور 24 تاش خریدے گئے جب کہ بچوں کے لیے 45 دیگر کھلونے بھی خریدے گئے۔

ان اشیا پر مجموعی طور ایک لاکھ 24 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ قرنطینہ مراکز میں موجود افراد کے لیے کیمپنگ ٹینٹ، سلیپنگ بیگز، ڈائپرز، بسکٹ، چاکلیٹ، چپس، پھل، دودھ، چکن بریانی اور مٹن سمیت کھانے پینے اور ضرورت کی دیگر اشیا پر بھی لاکھوں روپے خرچ کیے گئے۔

11 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 24 فروری سے 18 مارچ تک یعنی صرف 23 دنوں میں قرنطینہ مراکز میں موجود افراد اور عملے نے چھ کروڑ روپے کا کھانا کھایا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک فرد کے ایک وقت کے کھانے کے پیکٹ کی قیمت 825 روپے تھی جب کہ 95 لاکھ روپے فی عدد کے حساب سے 20 کنٹینرز بھی خریدے گئے۔

کوئٹہ سے تفتان کے قرنطینہ مرکز تک ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی مد میں 9 کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے گئے۔ مارچ کے مہینے میں پٹرول کی مد میں بھی ایک کروڑ روپے کے اخراجات درج کیے گئے ہیں۔

ویب سائٹ کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثنا اللہ بلوچ نے پیش کردہ رپورٹ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیمے لگانے کے لیے 13 لاکھ روپے کی کیلیں خریدی گئیں۔

ہولی فیملی کو کورونا اسپتال میں تبدیل کر دیں گے، شیخ رشید

ثنا اللہ بلوچ کے مطابق ماسک 800 روپے اورحفاظتی عینک 2440 روپے میں خریدی گئی جب کہ تھرمل گن 21 ہزار 960 روپے میں خریدی گئی حالانکہ مارکیٹ میں اس کی قیمت اڑھائی ہزار روپے سے زائد نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی پی ای کٹس چار ہزار اور پانچ ہزار روپے میں خریدی گئیں جب کہ بازار میں اس وقت قیمت ساڑھے تین سو روپے ہے۔ اسی طرح رضائیاں، کمبل اور بیڈ شیٹس بھی مہنگے داموں میں لیے گئے ہیں۔

ثنا اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ ایک کروڑ 22 لاکھ روپے میں پانی کی چھوٹی بوتلیں خریدی گئیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ڈیڑھ لاکھ روپے کے حساب سے جو سینکڑوں باتھ رومز بنائے گئے وہ کہاں ہیں؟

صوبہ بلوچستان کے وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے ضیا لانگو کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سامان کی خریداری کورونا کی پہلی لہر کے دوران ہنگامی حالت میں کی گئی۔ اس وقت عام حالات نہیں تھے بلکہ مارکیٹ میں طبی سامان اور اشیائے ضروریہ کی قلت تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجبوراً پی ڈی ایم اے کو مہنگے داموں چیزیں خریدنا پڑیں۔

انہوں نے کہا کہ سامان کی خریداری کے لیے باقاعدہ کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں پی ڈی ایم اے کے علاوہ محکمہ خزانہ اور محکمہ صحت کے حکام بھی شامل تھے۔

صوبائی وزیر ضیا لانگو کا کہنا ہے کہ کورونا متاثرین کو ہم نے صرف دوائی نہیں دینی تھی انہیں علیحدہ بھی رکھنا  تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹینٹوں کو لگانے کے لیے کیلیں بھی درکار ہوتی ہیں اور تفتان میں کوئی بھی چیز نہیں مل رہی تھی تو سامان کی خریداری کوئٹہ سمیت دیگر شہروں سے کی گئی جس پر ٹرانسپورٹیشن کے اضافی اخراجات بھی آئے۔

ویب سائٹ کے مطابق ثنا بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے گزشتہ ڈیڑھ سال میں چھ ارب روپے سے زائد خرچ کیے گئے ہیں لیکن بلوچستان میں سوائے فاطمہ جناح اسپتال کے کسی دوسرے اسپتال میں کورونا کے مریضوں کا علاج نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں ںے کہا کہ دیگر اسپتالوں میں مریضوں کی بہت کم تعداد رہی کیونکہ زیادہ تر افراد نے علاج گھروں پہ ہی کیا ہے تو بتایا جائے کہ سارا سامان کہاں ہے؟

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور احتساب کے اداروں کے ذریعے کورونا فنڈز کا خصوصی آڈٹ ہونا چاہیے اورمعلوم کرنا چاہیے کہ کن افراد نے فائدہ اٹھایا ہے؟

ویب سائٹ اردو نیوز کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بھی پی ڈی ایم اے کی جانب سے آفات کے دوران ہنگامی خریداری کے طریقہ کار پر آڈٹ پیراز لگاتے ہوئے ذمہ داران کے تعین کے لیے تحقیقات کی سفارش کی ہے۔

این سی او سی کا کورونا ویکسی نیشن مزید تیز کرنے کا فیصلہ

آڈیٹر جنرل کی پی ڈی ایم اے کی آڈٹ رپورٹ برائے سال 2019-20 میں سات کروڑ روپے زائد کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔


متعلقہ خبریں