مودی سرکار کیخلاف احتجاج کرنے والی خواتین کو سب کا سلام

مودی سرکار کیخلاف احتجاج کرنے والی خواتین کو سب کا سلام

فوٹو: فائل


امریکی جریدے ٹائم میگزین کے کور پیج پر بھارتی کسان خواتین کا راج ہے۔ 

ٹائم میگزین نے اپنے بین الاقوامی کور پیج پر کسان مظاہرے کی قیادت کرنے والی خواتین کی تصویر لگائی ہے۔

میگزین کے سرورق میں بہادری کی مثال قائم کرتی خواتین کے بارے میں لکھا گیا ہے انہیں ڈرایا نہیں جاسکتا نہ ہی خریدا جاسکتا ہے۔

سراپا احتجاج بنیں بھارتی کسان خواتین کو حکومت کی طرف سے صاف اور سادہ الفاظ میں ’گھر جاؤ‘ کا پیغام دیا گیا تھا۔

ٹائم میگزین سے گفتگو کرتے ہوئے ایک کسان خاتون جسبیر کور نے کہا کہ جب ہمیں حکومت کی طرف سے یہ پیغام ملا کہ ’گھر جاؤ‘ تو بہت تکلیف محسوس ہوئی‘۔

جسبیر کور نے ان عدالتی ریمارکس پر بھی برہمی کا اظہار کیا جس میں عدالت نے کہا تھا کہ خواتین احتجاج میں صرف کھانا پکانا اور دیگر کاموں میں چھوٹی موٹی مدد کرتی ہیں۔

خاتون کسان کا کہنا تھا کہ ہم واپس کیوں جائیں؟ یہ صرف مردوں کا ہی نہیں ہمارا بھی احتجاج ہے۔ اگر ہم کسان نہیں ہیں تو پھر ہم کون ہیں؟

یہ بھی پڑھیں: پاکپتن: کسانوں کی احتجاجی ٹریکٹر ریلی، 184 افراد پر مقدمہ درج

بھارتی کسانوں کے احتجاج کو سو روز مکمل ہو گئے ہیں۔ احتجاج کے 100 روز مکمل ہونے پر کسان رہنماؤں نے کل پانچ گھنٹوں کے لیے بھارت کی اہم  شاہراہیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

 26 نومبر 2020 سے متنازع زرعی قوانین کے خلاف بھارتی میں دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ جس میں لاکھوں کسان شریک ہو چکے ہیں۔ مودی سرکار نے گذشت سال ستمبر میں 3 نئے زرعی قوانین منظور کیے تھے۔

The protests have drawn women of all ages. While some speak onstage, others are simply determined to be present. “I am an illiterate woman,” says Gurmer Kaur, center, at the protests with her friends Surjit Kaur, left, and Jaswant Kaur, right, all in their mid-70s. “I cannot talk well, but I can sit tight—and I will sit here till the next elections if these laws are not called off.”

ان قوانین  کے تحت اناج کی سرکاری منڈیوں کو نجی تاجروں کے لیے کھول دیا گیا جب کہ اناج کی ایک مقررہ قیمت کی سرکاری ضمانت کے نظام کو ختم کر دیا گیا۔ اس کی جگہ کسانوں کو اپنا اناج کہیں بھی فروخت کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کنٹریکٹ کھیتی کا بھی نظام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت تاجر اور کمپنیاں کسانوں سے ان کی آئندہ فصل کے بارے میں پیشگی سمجھوتہ کر سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نصیرالدین شاہ بھی بھارتی کسانوں کے حق میں بول پڑے

ان قوانین کے حوالے سے کسانوں کو خدشہ ہے کہ سرکاری منڈیوں کی نجکاری سے تاجروں اور بڑے بڑے صنعتکاروں کی اجارہ داری ‍قائم ہو جائے گی اور مقررہ قیمت کی سرکاری صمانت نہ ہونے کے سبب انہیں اپنی پیداوار کم قیمت پر فروخت کرنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ کسانوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ بڑے بڑے صنعتکار بہت جلد ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیں گے۔

100 روز سے جاری اس احتجاج کے بارے میں کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ لڑائی لمبی چلے گی، سرکار سے بات چیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ 


متعلقہ خبریں