برطانیہ: پان کے شوقین افراد یہاں بھی ہیں

برطانیہ: پان کے شوقین افراد یہاں بھی ہیں

پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش سمیت دیگر قریبی ممالک کے اکثر علاقوں میں پان بڑے ذوق و شوق سے کھائے جاتے ہیں بلکہ بعض مواقع پر تقاریب کا لازمی جز قرار دیے جاتے ہیں تو کچھ تقاریب کا اختتام ہی پان کا ’بیڑا‘ اٹھانے سے ہوتا ہے۔

پان کی مقبولیت کا نتیجہ ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اشیا میں پان سرفہرست گردانا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جگہ جگہ پان کے کھوکھے، کیبن اور دکانیں دکھائی دیتی ہیں جہاں لوگ جوق در جوق جاکر اپنی پسند کا پان تیار کراتے اوراسے کھا کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

دلچسپ امر ہے کہ پان کی شہرت سات سمندرپار اس طرح پہنچی ہے کہ اب برطانیہ میں بھی نہ صرف پان کے شوقین افراد کے ذوق کی تسکین کے لیے مختلف اقسام کے پان ملنے لگے ہیں بلکہ ایسی دکانیں بھی کھل گئی ہیں جہاں گاہکوں کا رش رہنے لگا ہے۔

برصغیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ پان کے پتے کا استعمال اس خطے میں ہزاروں سالوں سے ہے لیکن اس کی جوموجودہ شکل ہے جس میں پان کا پتا، کتھا، چونا، چھالیہ، لونگ، الائچی، سونف اور کھوپرا کسی حد تک لازمی استعمال کیے جاتے ہیں اس کی ابتدا مغل بادشاہ جہانگیر کے دور سے شروع ہوئی تھی۔

تاریخ کی بعض کتب میں درج ہے کہ جہانگیر کے دورمیں شاہی حکیموں اور طبیبوں نے ملکہ کے لیے پان کی موجودہ شکل تیار کی تھی جس میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی آتی گئی۔ اس وقت بازار میں تمباکو والا پان، خوشبو والا پان اور میٹھا پان عام طور پردستیاب ہوتے ہیں جب کہ دیگرمتعدد اقسام کے پان فرمائش پرتیار کیے جاتے ہیں۔

لندن میں ایسے ہی پان کے ایک دکاندار نے ہم نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی لوگ خوشی سے پان کھاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے اورخواتین زیادہ ترمیٹھا پان کھانا زیادہ پسند کرتی ہیں جب کہ نوجوانوں میں خوشبو والے پان کی مقبولیت بہت زیادہ ہے۔

ایک سوال پرانہوں نے بتایا کہ کچھ افراد کو تمباکو والے پان درکار ہوتے ہیں تو ہم انہیں وہ بھی تیار کرکے دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گاہکوں کی فرمائش پر دیگر اقسام کے بھی پان بنا دیتے ہیں لیکن کسی کو واپس نہیں جانے دیتے ہیں۔

کوئی پان کی خوشبو پرفدا ہے تو کسی کو اس کا منفرد رنگ بھاتا ہے۔ پان کے زیادہ تر شوقین افراد کا کہنا ہے کہ وہ اسے تفریحاً کھاتے ہیں جب کہ بعض افراد کھانا کھانے کے بعد اس کے استعمال کے عادی ہوتے ہیں۔

ہم نیوز سے بات چیت میں متعدد افراد نے کہا کہ وہ چونکہ بچپن سے اس کے عادی ہیں اس لیے کھاتے ہیں جب کہ کچھ افراد کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے وہ اپنے اسلاف کی تہذیب و ثقافت سے جڑے رہنا چاہتے ہیں لیکن اس بات پر زیادہ تر متفق تھے کہ کبھی کبھار کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر اس کو عادت یا مجبوری نہیں بنانا چاہیے۔


متعلقہ خبریں