کل کے واقعہ پر قوم سے معافی مانگتے ہیں، صدر لاہور ہائی کورٹ بار کونسل



اسلام آباد: صدر لاہور ہائی کورٹ بار کونسل حفیظ الرحمان چوہدری نے وکلاء کی جانب سے اسپتال پر حملے کرنے کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل جو بھی ہوا اس پر شرمندہ ہیں اور قوم سے معافی مانگتے ہیں۔

ہم نیوز کے مارننگ شو ’صبح سے آگے‘ میں گزشتہ روز پیش آنے والے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عرفان نامی ڈاکٹر کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وکلا کا مذاق اڑایا گیا، اس عمل کی وجہ سے وکلا نے تضحیک محسوس کی۔

صدر لاہور ہائی کورٹ بار کونسل نے کہا کہ نوجوان وکلا اکٹھے ہوئے اور کہا کہ ہم پرامن احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے، لیڈرشپ نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا، جب وہ احتجاج ریکارڈ کرانے وہاں پہنچے تو اسپتال کے اسٹاف نے عمارت کے اوپر سے پتھراؤ شروع کر دیا جس سے وکلا مشتعل ہو گئے اور یہ واقعہ پیش آیا۔

’وکلا، ڈاکٹر اور انتظامیہ اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹرز ہمارے بھائی ہیں اور مریض ہمارے ملک کے شہری، جو بھی ہم اس کی تائید نہیں کرتے۔

اس سوال کے جواب میں کہ واقعہ کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ وکلا، ڈاکٹر اور انتظامیہ اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں۔

حفیظ الرحمان چوہدری نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ انتظامیہ سامنے آئے اور مسئلے کا حل ہو اور جو بھی اس واقعہ کا ذمہ دار ہے اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔

’ڈاکٹر زخمی وکلا کا علاج نہیں کر رہے‘

صدر لاہور ہائی کورٹ بار کونسل نے کہا کہ ہمارے بے شمار وکلا کو گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ 50 سے زیادہ زخمی ہیں اور ڈاکٹرز ان کا علاج نہیں کر رہے۔

ترجمان ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ڈاکٹر شعیب نیازی

پروگرام میں موجود دوسرے مہمان ترجمان ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ڈاکٹر شعیب نیازی نے اسپتال پر حملے کا بیک گراؤنڈ بتاتے ہوئے کہا کہ 23 نومبر کو کچھ وکلا آئے اور کسی وجہ سے انہوں نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) کے 52 سالہ فارماسسٹ پر تشدد کیا، یہاں سے اس سب معاملے کی شروعات ہوئی۔

ڈاکٹر شعیب نیازی نے مزید بتایا کہ اس واقعہ کے بعد انتظامیہ اور گارڈرز موقع پر پہنچے اور معاملہ رفع دفع کراتے ہوئے صلح کرا دی جس کے بعد وکلا کو چائے بھی پلائی گئی۔

’وکلا کو پہلے مار خاکروبوں اور پھر مریضوں کے لواحقین سے پڑی‘

ترجمان ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے کہا کہ وکلا کو پہلے مار خاکروبوں اور پھر مریضوں کے لواحقین سے پڑی تھی کیونکہ وہ ان دونوں پہ اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ صلح کے بعد گرینڈ ہیلتھ الائنس نے اس واقعہ پر معافی بھی مانگی اور سارا قصہ خوش اسلوبی سے نمٹا دیا گیا۔

صدر لاہور ہائی کورٹ بار کونسل کے اس بیان پر کہ وکلا پر پتھراؤ کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ فوٹیج مریضوں کے مرنے، بلڈنگ ٹوٹنے کے واقعہ کے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد کی ہے۔

’پولیس اہلکار کہہ رہا تھا ڈاکٹر صاحب پیچھے ہٹ جائیں ہم آپ کو نہیں بچائیں گے‘

اویس منگل والا اور شفا یوسفزئی کے ڈاکٹروں کی ہڑتال سے متعلق جواب پر ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی ہڑتال نہیں کی ، او پی ڈیز، ایمرجنسی اور ان ڈور کھلے ہیں، پی آئی سی کا کام ساری مشینری کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے بند ہے جیسے ہی عمارت اور مشینری قابل استعمال ہو جائے گی ہم کام شروع کر دیں گے۔

ترجمان ینگ ڈاکٹرز نے کہا کہ پولیس نے ہمیں نہیں بچایا، حلفاً کہتا ہوں کہ پولیس کا ایک اہلکار مجھے کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ پیچھے ہٹ جائیں ہم آپ کو نہیں بچائیں گے.

ایڈیشنل آئی جی پنجاب انعام غنی

پولیس کا اس واقعہ کے دوران کیا کردار رہا یہ جاننے کے لیے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب انعام غنی سے رابطہ کیا گیا، انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پولیس موجود نہیں تھی۔

انہوں نے بتایا کہ جب وکلا احتجاج کیلئے نکلے تو پولیس ان کے ساتھ تھی تاہم پولیس کو یہ بتایا گیا تھا کہ احتجاج ریکارڈ کرانے کیلئے پرامن ریلی نکالی جا رہی ہے۔

’ہم نے سڑک بھی خالی کرائی اور اسپتال بھی‘

ایڈیشنل آئی جی پنجاب نے کہا کہ قریباً 500 وکلا نے ریلی میں شرکت کی اور پولیس نے ریلی کے پرامن رہنے تک کوئی کارروائی نہیں کی تاہم جیسے ہی وکلا اسپتال میں داخل ہوئے تو پولیس حرکت میں آئی اور ہم نے سڑک بھی خالی کرائی اور اسپتال بھی۔

انعام غنی نے کہا کہ جن افراد نے قانون ہاتھ میں لیا ان کو نامزد کرکے پرچے کاٹے گئے ہیں، اس کے علاوہ ہمارے پاس ان کی تصاویر بھی موجود ہیں جن کی مدد سے مزید کارروائی کی جائے گی۔

ایڈیشنل آئی جی پنجاب نے کہا کہ متعدد وکلا کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔


متعلقہ خبریں