اسلام آباد: پیپلز پارٹی کے رہنما اور ماہر قانون اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ پاکستان میں سندھی اور پنجابی کے لیے بھی الگ الگ قانون ہیں تاہم ہمیں یقین ہے نواز شریف علاج کروا کر وطن واپس ضرور آئیں گے۔
ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور ماہر قانون اعتزاز احسن نے کہا کہ میرے نام سے سوشل میڈیا پر جھوٹے پیغامات چل رہے ہیں لیکن میں نے نواز شریف کے فیصلے سے متعلق کوئی پیغامات جاری نہیں کیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں صرف امیر اور غریب کے قانون کا فرق ہی نہیں بلکہ یہاں تو سندھی اور پنجابی لیڈر کے لیے بھی الگ الگ قانون ہے آصف علی زرداری کے مقدمات سندھ کے ہیں اور ان کا ٹرائل اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔
اعتراز احسن نے کہا کہ میرے خیال میں وہ اپنا علاج کرانے کے بعد بغیر کسی تاخیر کے واپس آجائیں گے اور ان کے خاندان میں صرف مریم نواز ہی ان کے ساتھ کھڑی ہیں لیکن نواز شریف کے بیٹے ان کی مشکل میں بھی ساتھ موجود نہیں ہیں۔ نواز شریف کو مریم نواز کی محبت وطن واپس لے کر آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت ضمانت دیتے ہوئے صرف اس بات کی تصدیق چاہتا ہے کہ وہ اگلی پیشی پر حاضر ہو گا اس دوران وہ کہیں بھی رہے اس سے عدالت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے تاہم ای سی ایل کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہوتا ہے۔
ماہر قانون نے کہا کہ نواز شریف کے میڈیکل سرٹیفکیٹ آتے رہیں گے لیکن ان کے اصلی یا نقلی ہونے کی بھی تصدیق کی جاتی رہے گی جبکہ عدالت کی جانب سے انہیں طلب بھی کیا جاتا رہے کہ کسی بھی طرح سے واپس آئیں۔
ماہر قانون بیرسٹر افتخار احمد نے کہا کہ تصفیہ یا عدالت سے باہر معاملات طے ہو سکتے ہیں لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو رہا ہو تو پھر وہ عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کا معاملہ تو مذاق ہی بن گیا ہے روزانہ کئی نوٹسز جاری کیے جا رہے ہوتے ہیں لیکن عمل نہیں ہو رہا ہوتا۔ نواز شریف مجرم تھے اور ان کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام تھا۔ حکومت کا کام صرف ای سی ایل کے معاملے کو دیکھنا تھا۔
بیرسٹر افتخار احمد نے کہا کہ حکومت کو کم از کم ریکارڈ کے لیے نواز شریف کے فیصلے کے خلاف اپیل ضرور دائر کی جانی چاہیے تاکہ آئندہ کے لیے اس پر عمل ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں نواز شریف کے معاملے پر اپیل کا فیصلہ کابینہ کرے گی، اٹارنی جنرل
انہوں نے کہا کہ جج کا کام بولنا نہیں ہوتا وہ ریفری ہوتا اس کا کام فیصلہ دینا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ججز کے بیانات چل رہے ہوتے ہیں۔ نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر جو سوالات تھے وہ عدالت کو پہلے سن لینے چاہیے تھے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار ارشد شریف نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے علاج کے لیے بیرون ملک تو جانا ہی تھا لیکن اس کے لیے کچھ حیلے بہانے کیے جاتے رہے۔ اس قوم کو بے وقوف اور جاہل سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ذیلی کمیٹیوں کے بہت سارے اجلاس بلائے گئے جس نے بانڈز کی شرط بھی لگائی جو کسی بھی صورت اہم نہیں تھا۔ حکومت اور مسلم لیگ ن آپس میں سیاست کھیل رہے تھے۔
ارشد شریف نے کہا کہ جب تک عمران خان کی حکومت ہے مسلم لیگ ق کے رہنما پرویز الہیٰ ان کے ہمراہ کھڑے ہیں۔ اگر حکومت نے نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے فیصلے پر اپیل دائر کی تو یہ معجزہ ہی ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ میں وزیر اعظم کا رویہ بہت متاثر ہوا، وہ نواز شریف کو بیرون ملک نہ جانے کے بار بار بیانات دیتے تھے لیکن کابینہ کی اکثریت نے نواز شریف کے بیرون ملک جانے کی حمایت کی جو عمران خان کے لیے بہت زیادہ حیران کن تھا۔
سینئر صحافی محمد مالک نے کہا کہ اگر عدالت فیصلے پہلے دے گی اور اس پر بعد میں بحث کرے گی تو پھر سوالات تو اٹھیں گے۔