’آرمی چیف سے کاروباری افراد کی ملاقات سے ماحول بہتر ہوگا‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کاروباری رہنماؤں کی ملاقات سے اعتماد بحال ہوگا جس سے ماحول میں بہتری آئے گی۔

ہم نیوز کے پروگرام ویوزمیکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے سینئیر تجزیہ کار عامر ضیاء نے کہا کہ معیشت میں بنیادوں سے پہلے اس کا تاثر ٹھیک ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں معیشت کے حالات اس سے خراب ہوئے لیکن شوکت عزیز نے تاثر اچھا رکھا۔ آرمی چیف نے یقین دلایا ہے کہ ان کی جائز شکایات کو دور کیا جائے گا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجدشعیب کا کہنا تھا کہ فوج پریشان ہے کہ سیکیورٹی کے خطرات اسی طرح ہیں، اگر معیشت بہتر نہ ہوئی ملکی مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ آرمی چیف کی بات سے اعتماد پیدا ہوتا ہے اور اس وقت معیشت کو اسی چیز کی ضرورت ہے۔

سینیئر تجزیہ کار ناصربیگ چغتائی کا کہنا تھا کہ اس ملاقات سے پہلے جو لوگ گبھرائے ہوئے تھے ان میں اعتماد پیدا ہوگا جس کا فائدہ معیشت کو ہوگا۔ جب لوگ سول حکومت سے پریشان ہوتے ہیں تو فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔

تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت اس لیے خطرہ ہے کہ اب دفاع کا زیادہ تعلق ٹیکنالوجی اور معیشت سے ہے۔ کاروباری لوگ وزیراعظم سے شکایت کرتے ہیں جو سنی بھی جاتی ہیں لیکن وزیراعظم کے احکامات پر عمل نہیں ہوتا۔ تجزیہ کار شکیل رامے نے کہا کہ آرمی چیف سے کاروباری افراد کی ملاقات سے ان کے تحفظات ختم ہوں گے جس سے اعتماد کی بحالی میں مدد ملے گی۔

مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ سے متعلق سوال کے جواب میں ناصربیگ چغتائی کا کہنا تھا کہ اس وقت سیاسی قوتیں مولانا کے ساتھ نہیں ہیں، پیپلزپارٹی والے ساتھ ہیں لیکن چلنے والے نہیں ہیں۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ مولانا کا احتجاج حکومت کے لیے خطرہ نہیں ہے کہ مولانا کے ساتھ لوگ نہیں ہیں۔ ن لیگ تقسیم ہے اور اسی وجہ سے ماضی میں بھی احتجاج نہیں کرسکی، وہ حکومت گرانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری حمایت حاصل نہیں ہے۔

امجد شعیب نے کہا کہ ماضی میں طویل دھرنے بھی ہوئے لیکن اس سے حکومت تبدیل یا ختم نہیں ہوئی۔ اس وقت سب ہی نظام کا حصہ ہیں لیکن مولانا اکیلے ہیں۔

ضیغم خان نے کہا کہ مولانا چاہتے ہیں کہ لیکن دوسری جماعتیں ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مولانا کے پاس تحریک کے لیے کوئی سیاسی بیانیہ بھی نہیں ہے۔

شکیل رامے نے کہا کہ حکومت کو محتاط رویہ اپنانا ہوگا کہ کسی بھی غلطی سے حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ اگر اس سے حکومت نہ بھی گئی تو حکومت کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔

نیب کے اختیارات سے متعلق سوال کے جواب میں ناصربیگ چغتائی کا کہنا تھا کہ احتساب کے نظام پر کئی سوالات ہیں جن پر اختیارات کے باوجود بھی سوالیہ نشان ہیں۔

عامر ضیاء نے کاہا کہ نیب کے 1800 مقدمات عدالتوں میں ہیں لیکن ان پر فیصلے نہیں ہوئے ہیں، جب جب مقدمات طوالت اختیار کرتے ہیں اس کا سارا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔

امجد شعیب نے کہا کہ نیب بے اختیار ادارہ نہیں ہے بلکہ اس کے پاس بہت اختیارات ہیں جنہیں پارلیمنٹ کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ نیب نے بہت سارے مقدمات شروع کیے ہیں لیکن سزائیں دلوا کر انہیں منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا۔

شکیل رامے نے کہا کہ ملزم طاقتور ہو تو نیب بے اختیار ہوجاتا ہے لیکن کمزور ہو تو انتہائی بااختیار ہوجاتا ہے، اس رویے کے خاتمے کے لیے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

ضیغم خان کا کہنا تھا کہ نیب جتنا بھی موثر ہوجائے اس سے کرپشن ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ کرپشن کے خاتمے کے لیے اس کی وجوہات کا خاتمہ ضروری ہے۔


متعلقہ خبریں