’بھارتی سپریم کورٹ نے اپنی حکومت کا ساتھ دیا‘



اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے معاملے کو نہ چھیٹر کر اپنی حکومت سے ہی تعاون کیا ہے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی امور کے ماہر ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے حالات معمول پر لانے کی بات کی ہے لیکن اتنی بڑی تعداد میں بھارتی فوج کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہے۔ اصل بات تو یہ تھی کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 370 کے حوالے سے کوئی حکم جاری کرتی۔

سینیئر تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت کا ساتھ دیا ہے۔ ان لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے جو توقعات لگا کر بیٹھے تھے کہ وہاں سے کشمیریوں کے لیے کوئی اچھی خبر آئے گی۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ بھارت میں اقلتیوں کے ساتھ کے اداروں نے جو سلوک روا رکھا ہوا ہے، بھارتی سپریم کورٹ نے بھی اسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج وہاں سے بھی یہی پیغام آیا ہے کہ ہم بھی ہندوتوا کے ساتھ ہیں۔

تجزیہ کار ڈاکٹر ناظر محمود کا کہنا تھا کہ بھارتی چیف جسٹس جس علاقے آسام سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ہزاروں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کیا گیا ہے لیکن اس حوالے سے انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ اس فیصلے میں بھی ججوں نے حکومت کا ساتھ دیا ہے۔

تجزیہ کار رضا رومی نے کہا کہ بھارت میں یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے، اس رویے کا بار بار اظہار ہوتا رہا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے افضل گرو کیس میں بھی شواہد کی عدم موجودگی میں عوام کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے پھانسی کی سزا برقرار رکھی تھی۔ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد کشمیر کے حوالے سے سب کی سوچ یکساں ہوگئی ہے جس کا بھارت کو نقصان ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کے حوالے سے ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان مدارس کے بچوں کی بڑی تعداد سڑک پر لاسکتے ہیں لیکن اس میں اصل بات مسلم لیگ ن کی حایت ہوگی۔

ناظر محمود نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے بعد ہی احتجاج ہوسکتا ہے اس سے پہلے مولانا فضل الرحمان حکومت کے لیے بڑی پریشانی کا سبب نہیں بن سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن بھی ان کا ساتھ نہیں دے گی۔

رضا رومی کاکہنا تھا کہ ماضی میں احتجاج یا دھرنے مقتدر حلقوں کی مدد کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں اور مولانا کا ہر صورت احتجاج پر اصرار حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی حکمت عملی ہے کہ وہ اسمبلی میں حکومت کے لیے کوئی پریشانی کھڑی نہیں کرسکتے اس لیے یہ کام وہ سڑکوں پر آکر کرنا چاہتے ہیں۔

امجد شعیب نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے احتجاج سے حکومت کو تب تک خطرہ نہیں ہوگا جب تک اپوزیشن تقسیم ہے کیونکہ اس وقت شہباز شریف مولانا کے ساتھ ہیں جنہوں نے کبھی تصادم کی سیاست نہیں کی۔


متعلقہ خبریں