کشمیر میں وحشیانہ ریاستی سلوک: انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے

مقبوضہ وادی میں کرفیو کا 13 واں روز

فوٹو: فائل


سری نگر: مقبوضہ وادی کشمیر پہ قابض بھارتی حکومت اور افواج کے غیر انسانی اقدامات کے باعث پوری وادی چنار میں صورتحال انتہائی نا گفتہ بہ ہوگئی ہے۔ گزشتہ چھ دن سے گھروں میں محصور افراد خوراک، دودھ اور ادویات سمیت دیگر ضروری اشیا کی قلت کا شکار ہو ئے ہیں جس کی وجہ سے خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ اگر فوری طور پر عالمی برادری نے مظلوم کشمیریوں کی مدد کے لیے عملی اقدامات نہ کیے تو کسی بھی وقت انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم نریندر مودی، وزیرداخلہ امیت شاہ اور مشیر برائے قومی سلامتی اجیت ڈووال کے احکامات پر پوری وادی کو عقوبت خانوں میں تبدیل کردیا گیا ہے اور جیلیں و حوالات بے گناہوں سے اس طرح بھر دی گئی ہیں کہ اب وہاں لوگوں کو رکھنے کی جگہ بھی کم پڑ گئی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر بھارت کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج

مقبوضہ وادی کشمیر سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق 500 افراد کو عارضی طور پر قائم کیے جانے والے عقوبت خانوں میں منتقل کرکے انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ قابض بھارتیوں نے اپنے ظلم و ستم کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے کرفیو کا دائرہ کارگل تک پھیلا دیا ہے جس کی وجہ سے وہاں مقیم افراد کی زندگیاں بھی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔

21 ویں صدی میں مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیری مائیں اپنے بچوں کے لیے دودھ طلب کررہی ہیں لیکن ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے اور اگر کوئی ماں بھوک سے بلکتے بچے کی آواز پر صرف کا گھر کا دروازہ کھولنے کی ہمت و جرات کرتی ہے تو اس پر سیدھی گولیاں برسائی جارہی ہیں۔

کشمیر میں مقیم متعدد افراد نے ’لینڈ‘ لائن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وحشیانہ اقدامات سے قابض بھارتی مظلوم کشمیریوں کے جذبات کو دبا نہں سکیں گے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ گھروں میں بچوں کے لیے دودھ نہیں ہے، دالوں اور سبزیوں کی قلت پیدا ہو چکی ہے اور گھروں سے نکلنے پر بھی پابندی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس سے بہت بہتر ہے کہ ایک ہی دفعہ سارے کشمیریوں کو مار دیا جائے۔

مظلومین نے مطالبہ کیا ہے کہ خدارا! عالمی برادری مظلوم کشمیریوں کے لیے کچھ کرے وگرنہ بہت دیر ہوجائے گی۔

سری نگر کے ایک اسپتال میں ڈلیوری کے بعد داخل ہونے والی روبینہ معراج نے کہا کہ وہ ڈلیوری کے لیے ایمبولینس میں اسپتال جارہی تھیں کہ انہیں راستے میں اتنی مرتبہ روکا گیا کہ بچے کو انہوں نے ایمبولینس میں جنم دیا۔

کرفیو کا پانچواں روز، محصور کشمیری شدید مشکلات کا شکار

بارہ مولہ کےسجاد کا کہنا ہے کہ بھارت سے کہیں کہ صرف ایک منٹ کے لیے موبائل سروس بحال کر دے تاکہ میں  اپنی ماں کو بتادوں کہ میں ابھی خیریت سے ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ بات نہ ہوسکنے کی وجہ سے ازحد پریشان ہوں گی۔

سری نگر کے رضا میر نے علاقے کی صورتحال کی بابت بتایا کہ میں نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سن کر دروازہ کھولا تو میری اہلیہ رابعہ دروازے پر گری ہوئی تھیں اور ماتھے سے خون بہہ رہا تھا۔ رابعہ نے بتایا کہ انہوں نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو باہر موجود فوجیوں نے سیدھی گولی چلادی۔ جس وقت رابعہ اپنے اوپر بیتنے والا واقعہ بتا رہی تھیں اس وقت ان کے قریب ہی موجود ان کا دو سالہ بچہ مسلسل رو رہا تھا۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سری نگر سمیت دیگر علاقوں کی گلیوں میں ہزاروں بھارتی فوجی اورنیم فوجی دستوں سمیت پولیس کی بھاری نفری موجود ہے جس نے خاردار تاریں لگا کر تمام داخلی و خارجی راستے بند کردیے ہیں۔

بھارت کے ریاستی اور فوجی مظالم سے تنگ آ کر مظفر آباد آزاد کشمیر میں پناہ لینے والے مظلوم کشمیری کہتے ہیں کہ مقبوضہ وادی کے متعلق ہمیں کوئی علم نہیں ہے کہ ہمارے پیارے کس حال میں ہیں؟

مقبوضہ وادی چنار میں ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم اور وحشیانہ ریاستی سلوک کے باعث بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا پر آشکار ہو گیا ہے اور اس کی انسانیت دشمنی بھی بے نقاب ہوئی ہے۔


متعلقہ خبریں