شیریں مزاری کو سندھ کا فوکل پرسن لگانے اور ہٹانے پر تنقید کا سامنا


وفاقی حکومت کے سندھ میں فوکل پرسن برائے انسانی حقوق کے خلاف ہومین رائٹس کی دھجیاں اڑائے جانے کی خبر کی تصدیق کے بعد بالاخر وفاقی حکومت نے افتخار احمد خان لُنڈ کو تعیناتی کے 19 روز بعد ہی برطرف کر دیا ہے۔

افتخار احمد خان کی تعیناتی دس جولائی کو عمل میں لائی گئی تھی لیکن ان پر ملازم کو مبینہ طور پرتشدد کا نشانہ بنانے کا الزام ہے۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹوئٹ کی کہ ہماری تحقیقات اور نئے ثبوتوں کی دستیابی پر میں افتخار احمد خان کو برطرف کرتی ہوں۔

شیریں مزاری نے اس سے قبل ان کی تعیناتی کےلیے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن پر معذرت بھی کی۔

واضح رہے کہ جب دس جولائی کو افتخار احمد خان کی تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تو سوشل میڈیا پر وفاقی حکومت خاص طور پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شیریں مزاری اس وقت بھی نشانہ بنیں جب انہوں نےافتخار احمد خان کے لیے جاری کیا گیا نوٹیفیکیشن واپس لینے کا اعلان کیا۔

ایک صارف نے لکھا کہ یہ بہت بڑی گیم تھی گھوٹکی الیکشن جیتنے کے لیے اسے عہدہ عطا کیا گیا جب ناکام ہو گئے تو ان کو یاد آ گیا کہ اس شخص نے ڈرائیور کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ 

اس تعیناتی کے فوری بعد ہی سے تحریک انصاف کو اس تعیناتی پر شدید تنقید کا سامنا رہا۔ اس تعیناتی پر ایوان بالا میں چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹ برائے انسانی حقوق مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او گھوٹکی کو ڈرائیور پر تشدد کے مقدمے کے ریکارڈ سمیت طلب کیا تھا۔

اس تعیناتی پر سوال اٹھاتے ہوئے چیئرمین قائمہ کمیٹی نے پوچھا تھا کہ بقول ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ملزم کو کس ضابطے کے تحت تعنیات کیا جا سکتا ہے ’یہ برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کو انسانی حقوق کا ترجمان بنایا جائے۔‘

افتخار احمد خان کی تعیناتی پر وزارت انسانی حقوق کے ترجمان نے موقف اختیار کیا تھا کہ سندھ میں وزارت انسانی حقوق کے رضاکارانہ طور پرفوکل پرسن کی تعیناتی میں میرٹ اور شفافیت کو مد نظر رکھا گیا ہے۔

وزارت انسانی حقوق کی طرف سے کہا گیا تھا کہ افتخار احمد خان کی رضاکارانہ طور پرتعیناتی کے وقت ان کی جانب سے اپنی بے گناہی کے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اس معاملے کو مزید دیکھا جا رہا ہے اور مبینہ واقعہ میں قصوروار پائے گئے تو وزارت انسانی حقوق اس معاملے کا ازسرنو جائزہ لے گی۔

دس جولائی کو پاکستان میں انسانی حقوق کی وزارت نے سندھ میں اپنے فوکل پرسن کے طور پر ضلع گھوٹکی سے تحریک انصاف کے صدر افتخار لُنڈ کو مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس عہدے پر کام کرتے ہوئے افتخار لُنڈ انسانی حقوق کے بارے میں وفاقی وزیر شیریں مزاری کی معاونت کریں گے تاہم یہ خدمات رضاکارانہ طور پر ہوں گی جس کے لیے وزارت انھیں کوئی ادائیگی کرنے کی پابند نہیں ہے۔

واضح رہے کہ ان پر دو ماہ قبل اپنے ملازم پر تشدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا تاہم افتخار لُنڈ نے ذرائع ابلاغ میں اس الزام کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے سیاسی کارروائی قرار دیا تھا۔

ملازم پر تشدد کے الزام کے بعد سیکنڈ سیشن جج گھوٹکی کی عدالت نے پچھلے دنوں میر افتخار لُنڈ  کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تھا۔ ان پر اپنے ڈرائیور اللہ رکھیو پر تشدد کرنے کا الزام تھا تاہم بعد میں فریقین میں عدالت سے باہر سمجھوتہ ہوجانے پر عدالت نے افتخار لُنڈ کو بری کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی صورتحال پرشیریں مزاری کا اظہارتشویش


متعلقہ خبریں