سچ بولنے کی ہمت نہیں تو انصاف بھی نہ مانگیں، چیف جسٹس


چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ جھوٹی شہادت پر ملزمان کے بری ہونے کا الزام عدلیہ پر ڈال دیا جاتا ہے، انصاف چاہیے تو سچ بولیں،سچ بولنے کی ہمت نہیں تو انصاف بھی نہ مانگیں۔ جھوٹے گواہوں کے خلاف کاروائیاں شروع ہو چکی ہیں۔کوشش کر رہے ہیں عدلیہ میں سچ کو واپس لائیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے یہ اہم ریمارکس قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیے ۔

سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم احمد کی بریت کیخلاف مقتول طارق محمود کے بھائی کی نظر ثانی اپیل خارج کردی۔

دوران سماعت چیف جسٹس  نے  مقتول کے بھائی سے مکالمے میں کہا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی نظر ثانی اپیل کیوں خارج ہوئی ہے؟ کیا عدالتی فیصلہ آپ نے پڑھا؟

مقتول کے بھائی صفدر صدیق نے کہا کہ اسکے  بھائی کو احمد نے قتل کیا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا احمد نے قتل کیا ہو گا مگرسوال یہ ہے احمد بری کیسے ہوا؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ غلط شہادت پر ملزم بری ہو جاتے ہیں۔جھوٹی شہادت پر ملزمان کے بری ہونے کا الزام عدلیہ پر ڈال دیا جاتا ہے،انصاف چاہیے تو سچ بولیں،سچ بولنے کی ہمت نہیں تو انصاف بھی نہ مانگیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے مقتول کے بھائی سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ نے بھائی کے قتل کی جھوٹی گواہی دی۔ جس ڈیرہ پر قتل کا واقعہ ہوا وہاں آپ موجود ہی نہیں تھے،کیوں نہ جھوٹی گواہی پر آپ کےخلاف کارروائی کرکے عمر قید سزا دیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ جھوٹی گواہی پر پہلے ہی پانچ جھوٹے گواہوں کو کاروائی کا سامنا ہے،سچ کے بغیر انصاف نہیں ہو سکتا۔ گواہ اللہ کی خاطر بنا جاتا ہے،اللہ کا حکم ہے اپنے والدین، بھائی، عزیز کےخلاف سچی گواہی دو۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جھوٹے گواہوں کے خلاف کاروائیاں شروع ہو چکی ہیں،کوشش کر رہے ہیں عدلیہ میں سچ کو واپس لائیں۔

یہ بھی پڑھیے:آج کل کرپشن کیخلاف عدالتوں کا رویہ بڑا سخت ہے،چیف جسٹس پاکستان

طارق محمود کو  2014 میں پنجاب کے ضلع پاک پتن میں  قتل کیا گیا تھا، ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ نے ملزم  کوعمر قید کی سزا سنائی تھی اورسپریم کورٹ نے ملزم احمد کو بری کر دیا تھا۔

احمد کی بریت کیخلاف مقتول کے بھائی صفدر صدیق نے نظر ثانی اپیل دائر کی تھی۔


متعلقہ خبریں