10 جھوٹ جن پر لوگ آج بھی یقین رکھتے ہیں

10 ایسے جھوٹ جن پر لوگ آج بھی یقین رکھتے ہیں

فائل فوٹو


مشہور مقولہ ہے کہ’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے‘ لیکن جب ایک بات کو بلاتحقیق پھلا دیا جائے تو اس پر سچ جیسا یقین پیدا ہو جاتا ہے۔

ایک مقبول جھوٹ کی حقیقت سے جب پردہ اٹھتا ہے تو لوگ ششدر رہ جاتے ہیں اور اس پر یقین کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

ذیل میں ہم کچھ ایسی غلط العام باتوں کی حقیقت بتائیں گے جن کو بلا تحقیق سچ سمجھ کر پھیلایا جارہا ہے۔

موت کے بعد بال اور ناخن کی پرورش


مغرب میں لوگوں کا خیال ہے موت کے بعد بھی انسانی جسم کے بال اور ناخن بڑھتے ہیں جو بالکل حقیقت کے برعکس عقیدہ ہے۔

اس جھوٹ کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ناخن اور بالوں کے گرد جلد میں چونکہ پانی کم ہوتا ہے لہذا موت کے جب انسانی جسم گل سڑ جاتا ہے تو اس صورت میں بھی ان حصوں کی نشونما جاری رہتی ہے۔

ویکسین آٹزم کا سبب


آٹزم یونانی لفظ Autoسےماخوذ ہے جس کا مطلب ہے خود ، یعنی آٹزم کے معنی خود فکری ، خیال پرستی ، تنہائی ،اپنے تصورات میں ڈوبے رہنا۔

ایک انتہائی متنازعہ نظریہ یہ بھی ہے کہ مختلف بیماریوں سے تحفظ کیلیے استعمال ہونے والی ویکسین انسان کو آٹزم کا مریض بنا دیتی ہے۔

تحقیق کے بعد اس جھوٹ سے پردہ اٹھنے کے باوجود بھی کچھ لوگ اپنے بچوں کو ویکسین لگوانے سے گریز کرتے ہیں۔

انسان بندر تھا


لکھاری کے مطابق یہ تاریخ کا مقبول ترین اور واحد جھوٹ ہے جس کی تعلیم اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں میں ڈارون تھیوری کی شکل میں دی جارہی ہے۔

ہر عمر کے قارئین بچپن میں یہی پڑھتے آئے ہیں کہ بندروں نے ارتقا کی مختلف منازل طے کر کے انسانی شکل اختیار کی جو حقیقت کے بالکل برعکس نظریہ ہے۔

آج تک ہونے والی کسی بھی سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ انسان کا ماضی بندروں سے جڑا ہے۔

دنیا کی مقبول ترین مذہبی کتاب قران مجید میں بھی خالق کائنات نے انسان کو مٹی سے بنا کر آسمان سے زمین پر اتارنے کی بات کی ہے۔

بیل کی سرخ رنگ سے نفرت

بیل کو زیر کرنا اسپین کا مقبول کھیل ہے جس میں کھلاڑی سرخ جھنڈی لہرا کر جانور کو حملے کیلیے اشتعال دلاتا ہے۔

لوگوں کا خیال ہے بیل کو سرخ رنگ سے نفرت ہے اور کھلاڑی پر حملہ کی وجہ اس کے ہاتھ میں جھنڈی کا رنگ ہے۔  درحقیقت بہت کم لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ بیل رنگوں میں تفریق کر ہی نہیں سکتا بلکہ یہ جانور مستقل حرکت کرتی اشیا سے نفرت کرتا ہے۔

انسان کا زیادہ دماغ فارغ رہتا ہے


مذکورہ بالا تمام غلط العام باتوں کی طرح بات بھی جھوٹ پر مبنی ہے کہ انسان  دماغ کا استعمال صرف 10 فیصد ہی کرتے ہیں۔ نئی تحقیق نے یہ حقیقت آشکار کردی ہے کہ انسان اپنی روز مرہ زندگی میں اپنا پورا دماغ استعمال کرتا ہے۔

چاند سے دیوار چین کا نظارہ


جی ہاں! یہ بھی ایک مقبول جھوٹ ہے کہ چاند سے دیوار چین نظر آتی ہے۔ زمین پر موجود کسی چیز کا سائز اتنا بڑا نہیں جس کا نظارہ دوسرے سیارے سے کیا جاسکے۔چاند کا سفر کرنے والے کسی سائنسدان نے آج تک اس بات اعتراف نہیں کیا۔

دماغ سے جسمانی گرمی کا اخراج

گرمیوں اکثر سننے کو ملتا ہے کہ گرمی دماغ کو چڑھ گئی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسانی جسم میں موجود تپش کا98 فیصد اخراج دماغ کے راستے ہوتا ہے۔

یہ بھی ایک غلط العام بات ہے کیوں کہ اندرونی حرارت کا اخراج جسم کے مختلف حصوں سے ہوتا ہے اور ہر اعضا مختلف مقدار میں حرارت خارج کرتا ہے۔

انگلیاں چٹخانے سے جوڑوں میں سوزش


ایک انتہائی غیر حقیقی تصور یہ بھی ہے کہ انگلیاں چٹخانے سے جسم کے دیگر جوڑوں میں سوزش شروع ہوجاتی ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ بات کس نے کس بنیاد پر پھیلائی ہے۔ اس جھوٹ کو بے بنیاد ثابت کرنے پر سائنسدان کو نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

سکہ گرنے سے موت کا خدشہ

90 وے کی دہائی سے پہلے پیدا ہونے والوں نے پاکستان میں 10 پیسے کا سکہ ضرور دیکھا ہوگا جس کا وزن انتہائی کم تھا۔ ہلکے وزن کے اس کرنسی کا استعمال تو ترک ہوچکا لیکن ایک غلط نظریہ ابھی باقی ہے کہ بلندی سے گرنے والا  ہلکا سکہ بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے جو حقیقت کے برعکس ہے۔

جنگ میں سینگوں والی ٹوپی کا استعمال


یورپی جنگجوؤں سے متعلق مشہور ہے کہ وہ دشمن کےخلاف سینگوں والی ٹوپی پہن کرمیدان جنگ میں اترتے تھے۔ درحقیقت ایسا صرف مخصوص تہواروں پر ہی کیا جاتا تھا۔


متعلقہ خبریں