احسن قتل کیس: ’پولیس، ملزمان میں فائرنگ کے تبادلے کا ثبوت نہیں ملا‘


کراچی: محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے احسن قتل کیس میں گرفتار اہلکاروں سے تفتیش مکمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس اہلکاروں اور ملزمان میں دوطرفہ فائرنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

کراچی کے علاقے صفورہ میں 16 اپریل کو پولیس کی مبینہ فائرنگ سے معصوم ڈیڑھ سالہ احسن کی ہلاکت کا کیس سامنے آیا تھا۔

ذرائع کے مطابق چاروں اہلکاروں کے تفصیلی بیانات لے لئے گئے۔ تفتیش میں پولیس مقابلے کے شواہد نہیں ملے۔

سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق اگر پولیس مقابلہ ہوتا تو دو طرفہ فائرنگ ہوتی تاہم پولیس اہلکاروں اور ملزمان میں دوطرفہ فائرنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی جائے وقوعہ اور اطراف سے پولیس مقابلے کا کوئی گواہ سامنے آیا۔

ذرائع نے بتایا کہ عبدالصمد اور امجد نامی اہلکاروں میں تلخ کلامی ہوئی تھی اور شواہد اہلخانہ کے الزام کو تقویت دیتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں نے ایک دوسرے پر فائرنگ کی۔

بتایا جارہا ہے کہ ملنے والی گولی کاخول بھی امجد کی پستول کا تھا۔تفتیش نے یہ بات بھی ثابت کردی کہ ایس ایچ او سچل جاوید ابڑو نے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔

16 اپریل کو 19 ماہ کا احسن مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہوگیا تھا۔

معصوم احسن کے جاں بحق ہونے کے بعد قائم مقام ایس ایس پی ملیر اعظم جمالی نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سانحہ کی تحقیقات کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: کراچی: طارق روڈ پر پولیس مقابلہ، راہ گیر شہری رب نواز جاں بحق

انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ چار پولیس اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے تسلیم کیا کہ حراست میں لیے گئے پولیس اہلکاروں کے پاس چھوٹے ہی ہتھیار تھے۔

افسوسناک امر ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران پے در پے ایسے اندوہناک سانحات وقوع پذیر ہوئے ہیں کہ جس میں معصوم و بے گناہ شہری مبینہ طور پر پولیس مقابلے کی زد میں آکر اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔

حکومت کی جانب سے ہر سانحہ کے بعد یہی دعویٰ کیا گیا کہ ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی لیکن تاحال یہ صرف دعویٰ ہی ثابت ہوا ہے۔

دستیاب ریکارڈ کے مطابق چھ اپریل 2019 کو قائد آباد کے علاقے میں مبینہ پولیس مقابلے کا نشانہ بن کر 12 سالہ سجاد جاں بحق ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: پولیس مقابلہ، جاں بحق ہونے والے سجاد کی نماز جنازہ ادا

مقتول سجاد کے والد عدالت خان نے اپنے معصوم بچے کا جنازہ اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ عوامی مقامات پر اس طرح کے مقابلوں پر پابندی عائد کی جائے لیکن تاحال یہ مطالبہ صدا بہ صحرا ثابت ہوا ہے کیونکہ حکومتی و انتظامی سطح پر اس ضمن میں کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

22 فروری کی شب نارتھ کراچی میں میڈیکل کی طالبہ نمرہ کی ہلاکت کے وقت بھی مبینہ پولیس مقابلے میں ہوئی تھی۔ ابتدا میں پولیس نے مؤقف اپنایا تھا کہ نمرہ ڈاکوؤں کی گولی کا نشانہ بنی ہے لیکن جب ڈی آئی جی سی آئی اے کی سربراہی میں تحقیقات ہوئیں تو واضح ہو گیا کہ نمرہ کو پولیس اہلکاروں کی گولیاں ہی لگی تھیں۔

سال روں کے آغاز پر شہر قائد کے علاقے کورنگی میں میاں بیوی بھی پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے تھے۔

گزشتہ برس جنوری میں بھی شارع فیصل پر ہونے والے مبینہ پولیس مقابلے نے راہ گیر مقصود کی جان لے لی تھی۔


متعلقہ خبریں