امریکی سفارت  خانے کے اندر  فائرنگ رینج بنانے کا اعلان


اسلام آباد:پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں  امریکہ  کی طرف سے امریکی سفارت  خانے کے اندر  فائرنگ رینج بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

امریکی سفارت خانے کی طرف سے  رواں سال ہی فائرنگ رینج کی تعمیر کے لیے ٹینڈرزبھی  طلب کر لیے گئے ہیں ۔ منصوبے پرایک سے ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر لاگت آئے گی۔اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں فائرنگ رینج بنانے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔

امریکی سفارت خانے میں فائرنگ رینج کے ساتھ ساتھ اسلحہ گودام اور اسلحہ صفائی شیڈ  بنایا جائیگا ۔ امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے ٹینڈر کے مطابق یہ سہولیات بھی فائرنگ رینج کا حصہ ہیں۔
امریکی سفارت خانہ  رواں برس ہی اسلام آباد میں  فائرنگ رینج تعمیر کرنا چاہتا ہے۔

 فائرنگ رینج کا اشتہار امریکی سفارتخانے کیلئے نہیں لگایا گیا،ترجمان امریکی سفارتخانہ

امریکی سفارتخانے کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیاہے کہ فائرنگ رینج کا اشتہار امریکی سفارتخانے کیلئے نہیں لگایا گیا۔امریکی سفارتخانہ اپنی حدود میں کوئی فائرنگ رینج یا ٹاور تعمیر نہیں کررہا۔ ڈپلومیٹک انکلیو کے اندر پہلےسے ہی اسلام آباد پولیس کی ایک فائرنگ رینج موجود ہے۔

ترجمان کے مطابق اشتہار کا مقصدر موجودہ فائرنگ رینج کو اپ گریڈ کرنے کیلئے ٹینڈر دینا تھا،اس کا مقصد پاکستان میں پولیس کے نظام کو بہتر بنانے میں مدد کرنا ہے۔ امریکا پاکستان پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیتیوں میں بہتری کیلئے کام کررہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں امریکی سفارتخانے میں توسیع کے حوالے سے اس سے قبل بھی خبریں آتی رہیں اور ان خبروں پر خاصی تنقید بھی دیکھنے میں آئی ہے ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق  2009میں سپریم کورٹ کے روبرو ایک آئینی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ عدالت امریکی سفارتخانے کی توسیع کو روکنے کے احکامات جاری کرے کیونکہ یہ ملکی مفاد کے برعکس ہے۔

وطن پارٹی کی طرف سے بیرسٹر ظفر اللہ خان نے سپریم کورٹ لاہور میں دائر کی گئی درخواست میں وفاقی حکومت کے علاوہ وزارت خارجہ، داخلہ اور قانون کو فریق بنایا۔

دخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ امریکی سفارتخانے میں توسیع کے لیے اسلام آباد میں مزید اٹھارہ ایکٹر اراضی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس طرح امریکی سفارتخانے کو چھپن ایکٹر اراضی مل جائے گی جو اسلام آباد کے ہوائی اڈے کے لیے دی جانے والی اراضی کے برابر ہو جائے گی۔ درخواست میں الزام لگایا گیا کہ اس توسیعی منصوبے کی آڑ میں امریکہ ملک میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔

درخواست میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا  کہ اگر امریکی سفارتخانے کی توسیع کے لیے اراضی فراہم کی گئی تو اس سے ایٹمی اثاثوں اور ملکی سالمیت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

درخواست میں یہ کہا گیا  کہ سعودی عرب کے علاوہ بعض عرب ممالک پنجاب اور سندھ میں سات لاکھ ایکٹر اراضی خریدنا چاہتے ہیں اور یہ اندیشہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر یہ اراضی بھی امریکہ کا فرنٹ مین بن کر خریدی جا رہی ہے جو پاکستان کے اناج پر قبضہ کرنے کی ایک سازش ہے۔

درخواست میں یہ نکتہ بھی اٹھایاگیا کہ کسی ملک کو اس کے سفارتخانے کے لیے صرف ضرورت کے مطابق ہی اراضی دی جاتی ہے۔ درخوست میں مختلف حوالہ جات دیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ایک ملک نے دوسرے ملک میں اپنے سفارتخانے میں توسیع کی اجازت نہیں دی۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ حکومت کو ہدایت کی جائے کہ امریکی سفارتخانے کی توسیع کے لیے اراضی نہ دی جائے اور کسی دوسرے ملک کو اراضی لیز پر نہ دے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ اگر حکومت نے کسی دوسرے ملک کو اراضی لیز پر دی ہے تو اس معاہدے کو منسوخ کر دیا جائے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے 2018میں  امریکی سفارتخانے کی توسیع کےخلاف درخواست  مسترد کردی تھی۔

سپریم کورٹ نے درخواستگزار کا موقف سننے کے بعد درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملات عدالتوں میں آنے والے نہیں یہ معاملہ ڈپلومیٹک نوعیت کا ہے جبکہ یہ پالیسی کا معاملہ ہے جس سے درخواست گزار کا حق متاثر نہیں ہوا۔


متعلقہ خبریں