قائمہ کمیٹی نے کم عمری کی شادی کے تعین کا بل منظور کر لیا


اسلام آباد: قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی جانب سے کم عمری کی شادی کے تعین کا بل منظور کر لیا گیا ہے۔

مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کم عمری کی شادی اور سانحہ ساہیوال سانحہ پر تبادلہ خیال کیا گیا جس کے بعد بچوں کی بلوغت کی حد 18 سال مقرر کر دی گئی ہے۔

چیئرمین کمیٹی مصطفی نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ کم عمری میں کی گئی شادیاں معاشی اور معاشرتی مسائل پیدا کرتی ہیں۔

سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ  پاکستان کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبرپر ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر کی حد 16 کے بجائے 18 سال کی جائے کیونکہ عمر کی حد بڑھانے سے  صحت اور سماجی مسائل پر قابو پایا جاسکتا پے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوغت کی عمر تک پہنچنے کے باوجود لڑکیاں شادی کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ 18 سال کی عمر تک لڑکیاں سمجھدار ہوجاتی ہیں کہ بچوں کی پیدائش اور گھر داری کے معاملات کو کس طرح سنبھالنا ہے۔

اس حوالے سے سینیٹر مظفر حسین شاہ نے بتایا کہ شریعہ کے مطابق ترمیم کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی مشاورت لی جائے گی۔

بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ  پاکستان کو بین الاقوامی کنونشن پر عمل درآمد کرکے شادی کی عمر 18 سال مقرر کرنی چاہیئے۔ ہر چیز میں اسلامی نظریاتی کونسل کولانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی رائے قانون سازی کے لیے لازمی نہیں ہوتی۔

سینیٹر عثمان کاکڑ کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں کم عمر بچیوں کو معاشرتی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ شادی کے لیے 18 سال عمر کا قانون پارلیمنٹ سے منظور ہونا چائیے۔

انہوں نے بتایا کہ ملک میں بچوں کی شرح اموات کی بڑی وجہ کم عمر میں کی گئی شادیاں ہے۔ شناختی کارڈ بنانے کے لیے عمر 18 سال ہے تو شادی کے لیے بھی یہی ہونی چاہیئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں  کے لیے بھی شادی کی عمر بھی 18 سال ہی ہونی چاہیئے۔


متعلقہ خبریں