بلوچستان میں پانی کی صورتحال پر کمیشن قائم

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بلوچستان میں پینے کے پانی کی صورتحال پر کمیشن قائم کرتے ہوئے دو ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔

سپریم کورٹ پاکستان میں بلوچستان کے ضلع بولان میں صاف پانی کی قلت سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

عدالت نے سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی کو کمیشن کا سربراہ جب کہ انجیئر عثمان بابائی کو کمیشن کا رکن مقرر کرتے ہوئے ایک ماہ میں بھاگ ناڑی میں آر او پلانٹ نصب کرنے کا بھی حکم جاری کر دیا ہے۔

عدالت نے کمیشن کو بلوچستان کے اُن علاقوں کی تفصیل بھی پیش کرنے کی ہدایت کی جہاں پینے کے پانی کی قلت ہے جب کہ محکمہ آبپاشی سمیت تمام اداروں کو کمیشن سے تعاون کرنے کی بھی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ضرورت پڑھنے پر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو بھی عدالت طلب کیا جا سکتا ہے جب کہ کابینہ کو بھی بلوچستان کی صورتحال پر ویڈیو دیکھنے کا موقع دیں گے۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ بلوچستان میں پانی کی صورتحال پر سی ڈی منگوائی تھی وہ چلائی جائے۔ جس کے بعد بھاگ ناڑی میں پانی کے تالاب کی ویڈیو چلائی گئی جس میں تالاب سے گدھوں پر پانی لے جایا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان کی حالت دیکھیں لوگوں کو زہر پلایا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بلوچستان حکومت کی طرف سے کون عدالت میں آیا ہے ؟ ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) بتائی کہ کیا یہ ویڈیو جھوٹی ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کم از کم تالاب کے پانی کو ٹریٹ ہی کرلیں، کیا لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ صاف پانی پیئیں۔

بولان کے علاقے بھاگ ناڑی سے آئے ہوئے مکین نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہماری حالت تو تھر سے بھی زیادہ بدتر ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ چیف سیکرٹری بلوچستان ایران گئے ہوئے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر وزیر اعلیٰ بلوچستان کو ہی بلا لیتے ہیں جب کہ ڈی سی نے دکھائی گئی ویڈیو کو درست قرار دے دیا۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ایک ارب 20 کروڑ روپے پہلے اور پھر چار کروڑ روپے خرچ کر دیے گئے لیکن ایک بھی آر او پلانٹ نہیں لگایا گیا جب کہ تھر میں دورے کے دوران کسی نے آر او پلانٹ کا پانی پینے کی کوشش بھی نہیں کی۔ لوگوں کو زہر پلایا جا رہا ہے۔

شاہ زین بگٹی نے عدالت کا نوٹس لینے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ذاتی اخراجات پر ٹیوب ویل شروع کروایا ہے جب کہ عدالت علاقے میں واٹر سپلائی اسکیم کی تحقیقات بھی کرائے۔

عدالت کے حکم پر رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) رمیش کمار بھی عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ تھر کی کوئی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے تھر کے لیے ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنانے کی بھی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تھر کے دورے کے دوران جس پلانٹ سے میں نے پانی پیا وہاں پانی پینے کی کسی اور کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔


متعلقہ خبریں