نیشنل ایکشن پلان دراصل نیشنل ان ایکشن پلان ہے، جنرل (ر) اسد دورانی


اسلام آباد: سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان دراصل نیشنل ان ایکشن پلان ہے، اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جو پہلے نہیں ہو رہی تھی، نہ ہی کوئی ایسی چیز ہو رہی ہے جو کہ درحقیقت ہونی چاہیے تھی۔

ہم نیوز کے پروگرام “بڑی بات” میں میزبان عادل شاہ زیب سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں فوج اور سیکیورٹی اداروں سے متعلق تو صرف 20-25 فیصد کام ہیں، اصل کام تو سیاسی اور حکومتی نوعیت کے ہیں جو کہ اس جنگ کا اہم ترین حصہ ہے۔

دہشتگردی کی جنگ میں پولیس کے کردار کو سراہتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ کام چوکیوں پر کھڑے پولیس اہلکاروں نے کیا ہے۔

سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ جب ہم وار فوٹنگ کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطالب ہے کہ اس کو مرکزی ترجیح دی جائے۔

اسد درانی نے کہا کہ ہندوستان جیسا ملک جو کہ معروف اسٹریٹجسٹ چانکیہ کی حکمت عملی کے تحت چلتا ہے اس کے لیے تو لازم ہے کہ وہ اپنے ہمسائے میں بدامنی پھیلائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو ہم کہیں گے کہ وہ اپنا کام نہیں کر رہا۔

” position =”left”]

نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سی پیک سے پہلے بھی ہو رہی تھی، بھارت اور امریکہ میں ڈیپ اسٹیٹ بہت مضبوط ہے تاہم پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ خاصی کمزور ہے، بھارت نے تقریباً 20 سے 25 سال پہلے ہی اپنے ملک میں اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا، پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ نے صرف ایک مرتبہ قوت کا مظاہرہ کیا تھا جب 2007 میں پورے خطے کو صاف کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

دوسری جانب اورکزئی ایجنسی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے حوالے سے خیبر پختونخواء کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے سی پیک میں ترقی ہو رہی ہے ویسے ہی ان واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، ان واقعاتٍ کے پیچھے دشمن ممالک کا ہاتھ ہے۔

معروف تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کا فاٹا انضمام کے حوالے سے کہنا ہے تھا کہ قبائلی علاقوں میں پولیس کے نظام کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔

چینی قونصل خانے پر حملے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان لبریشن آرمی کی خودکش حملہ کرنے کی صلاحیت اور کراچی میں جاکر حملہ کرنا انتہائی اہم پیش رفت ہے۔


متعلقہ خبریں