کمال احمد رضوی، ایک عہد ساز فنکار

تلخ لہجے اور کڑوی کسیلی باتیں کرنے والے کمال احمد رضوی کی آج تیسری برسی ہے۔ پاکستان کے بلند پایہ مکالمہ نویس، ڈرامہ نگار کے علاوہ تھیٹر، ریڈیو اور ٹی وی کے منفرد اداکار طویل علالت کے بعد 17 دسمبر 2015 کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے، وصال کے وقت ان کی عمر 85 سال تھی۔

الف نون، ہم کہ ٹھہرے اجنبی، چور مچائے شور، میرے ہمدم میرے دوست، ہم سب چور ہیں، آپ کا مخلص، مسٹر شیطان، بانو کا میاں سمیت انہوں نے بے شمار کام کیا، لکھا لوگوں کو ہنستے ہنستے رلایا اور روتے روتے ہنسایا۔ آپ کی خدمات کے اعزاز میں آپ کو صدارتی ایوارڈ، تمغہ برائے حسن کارکردگی 1989ء میں دیا گیا۔ کمال احمد رضوی نے 20 کے قریب ڈراموں، ناولوں اور کتب کے ترجمے کیے ہیں، 9 طبع زاد ڈرامے، 17 ریڈیائی ڈرامے) تراجم، طبع زاد (20 ٹی وی اور اسٹیج ڈرامے، 8 بچوں کے ناول اور ڈرامے، افسانے کی ڈرامائی تشکیل) بادشاہت کا خاتمہ (منٹو سمیت دیگر ڈرامہ نگاروں کے 8 اسٹیج ڈرامے لکھے جبکہ بطور اداکار 4 ڈراموں میں کام کیا۔

کمال احمد رضوی ایک اچھے اداکار اور ہدایت کار ہی نہیں بلکہ ایک اچھے قلم کار بھی تھے، کتابوں کے بے حد رسیا تھے اور کتب بینی ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی، ان کی نادر تحریروں میں مسٹر شیطان، آدھی بات، صاحب بی بی اور غلام قابلِ ذکر ہیں۔کمال احمدرضوی پاکستان کے چند نامور ڈائجسٹوں کے مدیر بھی رہے ہیں جن میں تہذیب، آئینہ اور شمع جیسے قابل ذکر نام شامل ہیں۔ انہوں نے لندن میں وہیں کے اداکاروں کے ساتھ دو اسٹیج ڈرامے کیے ۔ایک بار کامن ویلتھ انسٹیٹیوٹ تھیٹر میں جبکہ دوسری بار ویسٹرن آرٹس تھیٹر میں کیا بعد ازاں اسی ڈرامے کو برمنگھم اور مانچسٹر بھی لے گئے۔

آج جب ان کی تیسری برسی کے موقع پر مجھے ان سے کی گئی ایک ملاقات یاد آگئی۔ میں نے ان سے ایک روزنامے کیلئے انٹرویو کی درخواست کی، مجھ سے کہا گیا تھا کہ وہ وقت نہیں دیں گے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر مجھے فوراً ہی وقت دے دیا کہ دیکھتا ہوں کہ تم کتنی صحافتی دیانت داری کا ثبوت دیتی ہو۔ عسکری میں واقع ان کے فلیٹ پر کی گئی ان سے ملاقات شاید میں ساری عمر نہ بھول سکوں جس میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے سب کچھ انتہائی سچ سچ کہا۔ وہ میری زندگی کا یادگار انٹرویو تھا جسے بے حد پذیرائی حاصل ہوئی اور بہت سے لوگوں نے اسے شکریہ کے ساتھ شائع بھی کیا۔ اس زمانے میں ہم نیٹ ورک سے ان کا ڈرامہ ’سپر شیطان‘ اور دوسرا ڈرامہ ’ڈرو اس وقت سے‘ آن ائیر تھا۔ اس انٹرویو سے کچھ ایسی باتیں پیش خدمت ہیں جو اس سے یقیناً آپ لوگوں نے قبل ازیں نہیں پڑھی ہوں گی ۔اپنی نوعیت کے اس انتہائی منفرد فنکار سے بات چیت سہل نہ تھی، میں ہر سوال سنبھل کر کررہی تھی اور وہ برجستہ ہر بات کا جواب دے رہے تھے۔ میں سب سے پہلے سوال کا اتنا مفصل جواب توقع نہیں کررہی تھی۔ میرا سوال تھا ’سنا ہے کہ آپ کی ذاتی زندگی بہت اُتار چڑھاﺅ کا شکار رہی ہے ؟‘ انہوں نے بغیر کسی توقف کے جواب دیا ۔’ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب آدمی بہت کام کررہا ہو تو اس کی ذاتی زندگی متاثر ہوتی ہے، میری تین شادیاں ہوئیں۔ پہلی بیوی سے میری نہ نبھ سکی، وہ میری زندگی کا ایک تلخ تجربہ تھا، تین سال وہ شادی رہی۔ اس شادی کے ختم ہونے کے بعد میں نے الف نون دوبارہ شروع کیا اور خود کو کاموں میں الجھالیا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے بے حد شہرت اور کامیابی دی۔ 1968ء میں، میں ایک ڈرامہ لے کر کراچی آیا اس وقت میں نے دیکھا کہ لوگ الف نون کیلئے پاگل تھے، آدم جی آڈیٹوریم میں 70 ہزار کی ٹکٹیں فروخت ہوئیں۔ 1974ء میں، میں لندن گیا جہاں ایک انڈین خاتون سے ملاقات ہوئی اور شادی کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ لندن میں رہیں، میں نے کہا کہ لندن ہمارا ملک نہیں ہے، لاہور یا کراچی میں رہیں گے مگر وہ نہ مانیں۔ میں اس کے ساتھ لندن گیا وہاں میں نے اسٹیج ڈرامہ کیا اور وہیں سے اس کو خدا حافظ کہہ دیا۔ وہ انڈیا چلی گئیں اور میں پاکستان آگیا بعدازاں ان کے والد آئے کہنے لگے کہ آپ میری بیٹی کو طلاق دے دیں، میں نے انہیں لکھ کر دے دیا۔ تیسری شادی میں نے 22 سال قبل کی، میرا ایک ہی بیٹا ہے جو پہلی بیوی سے ہے اس کا نام سید علی سالار ہے جو بیرون ملک مقیم ہیں ۔‘

میں نے ان سے دریافت کیا آخر آپ کے مزاج میں اس قدر تلخی کیوں ہے ؟جواب آیا ۔ ’آپ کمال کی بات کررہی ہیں، آپ مجھے کھولتا ہوا پانی پینے کو دے دیں اور جب میری چیخ نکلے تو پوچھیں کہ کیوں چیخ رہے ہیں۔ میرے مزاج میں تلخی اس لیے نہیں ہے کہ مجھے کبھی عشق میں ناکامی ہوئی ہو یا کوئی ایسی ہی دوسری بات بلکہ معاشرے نے مجھے تلخ بنایا ہے۔ میں نہایت حساس ہوں، میں کسی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو محسوس کروں گا تو میرا دل چاہے گا کہ میں اسے جاکر قتل کردوں مگر میں یہ نہیں کرسکتا ۔ میں کبھی کبھی خدا سے پوچھتا ہوں کہ جب میں کچھ نہیں کرسکتا تو پھر مجھے کیوں غصہ آرہا ہے مگر اللہ نے مجھے احساس، عقل دی ہے جو مجھے اس طرح سے سوچنے پر اور لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ میں آپ کو یہ بھی بتاﺅں کہ ایسا ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے مگر کیوں کہ میں ایک جانی پہچانی ہستی ہوں اس لیے آپ مجھے تلخ محسوس کرتی ہیں۔‘

اپنے حوالے سے کمال احمد رضوی نے مجھے بتایا ’میں یکم مئی 1930ء میں ”گیا “ میں پیدا ہوا، جو بھارت کے صوبہ بہار میں واقع ہے۔ اس شہر میں میرے جد امجد نے ہزاروں غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ میری اس بات سے آپ کو یہ تو سمجھ آہی گیا ہوگا کہ میرے گھر کا ماحول مذہبی، علمی اور ادبی تھا۔ میرے والد صاحب کا نام سید عبد الرشید تھا جو انڈین پولیس سروس میں آفیسر تھے۔ غالباً میں چند برس کا تھا کہ میری والدہ میمونہ خاتون کا انتقال ہوگیا، والدہ کے انتقال نے میرے مزاج میں بے حد تبدیلی پیدا کی، مجھے ان کی بہت زیادہ یاد ستایا کرتی تھی جس نے مجھے گوشہ نشین کردیا۔ جب میرے والد نے دوسری شادی کی تو مجھے اچھا نہیں لگا ،گو کہ میری دوسری والدہ بہت اچھی خاتون تھیں اور انہوں نے مجھ سے کبھی سوتیلا پن بھی نہیں دکھایا لیکن اس کے باوجود سوتیلی ماں کا روایتی تصور میرے ذہن و دل پر کل بھی سوار تھا اور آج بھی سوار ہے۔ میرے والد صاحب کو مطالعے کا بے حد شوق تھا آپ یوں سمجھیے کہ ہمارے گھر میں صرف کتابیں ہی کتابیں نظر آیا کرتی تھیں، کتب بینی کے علاوہ میرے والد کو اگر کسی چیز کا شوق تھا تو وہ تھیٹر تھا۔ اس زمانے میں عوامی سطح پر یہی ایک تفریح ہوتی تھی لیکن اس وقت تھیٹر تو نہیں البتہ نوٹنکی ہوتی تھی جس میں کام کرنے والوں کو معاشرے میں گری ہوئی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ مجھے پڑھنے لکھنے سے کبھی دلچسپی نہیں تھی لیکن میرا گھریلو ماحول کچھ اس طرح کا تھا کہ میں تعلیم سے دور رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ بہرکیف گھسیٹ گھساٹ کر میں نے بی اے کرہی لیا۔ جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اس وقت میں نے ایک ڈرامہ پڑھا، مجھے وہ بہت پسند آیا اس کے بعد میں نے اسے دوبارہ پڑھا اور پھر پڑھتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ مجھے وہ ڈرامہ ازبر ہوگیا۔ اسکول میں شیکسپیر کا ڈرامہ ’مرچنٹ آف وینس‘ اسٹیج کیا گیا۔ میں نے اس ڈرامے میں یہودی شائکلاک کا کردار ادا کیا تھا۔ اسکول ہی کے زمانے میں ایک ادبی رسالہ ’جمالستان‘ میں ایک افسانہ بھیجا جو شائع بھی ہوگیا، یہ افسانہ میں نے کمال رضوی کے نام سے بھیجا تھا، میرے والد نے اسے پڑھنے کے بعد بہت تعریف کی۔ میں نے 1952ء میں ریڈیو پاکستان لاہور سے ڈرامے لکھنے کی ابتداء کی۔اس وقت ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری وہاں ڈائریکٹر تھے جب کہ ڈرامہ نگاروں میں شوکت تھانوی، امتیاز علی تاج اور رفیع پیرزادہ بھی موجود تھے۔ ان افراد کے درمیان میں ڈرامہ لکھنے کا انداز سیکھا، میں سمجھتا ہوں کہ ڈرامہ میرے تحت الشعور میں ہمیشہ سے مجھ میں موجود تھا۔ 1965 کی بات ہے اس وقت اسلم اظہر پی ٹی وی کے جنرل منیجر تھے۔ انہوں نے لاہور کے الحمراء آرٹس کونسل میں میرا ڈرامہ ’خوابوں کے مسافر‘ دیکھا اور پی ٹی وی آنے کی دعوت دی۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ ختم ہوچکی تھی اور لاہور کا ٹی وی اسٹیشن ابتدائی دور میں تھا، یوں میں نے لاہور سے ٹی وی پر کام کا آغاز کیا۔

کمال احمد رضوی کو تھیٹر سے عشق تھا، انہوں نے تھیٹر سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور آخری وقت تک وہ تھیٹر کی بہتری کے خواہاں رہے۔ ڈراموں کی گرتی ہوئی صورت حال سے بھی وہ پریشان نظر آئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ”میرے اور مجھ جیسے لکھنے والوں کے بہت سے ڈرامے اب لوگ نہیں دیکھتے کیوں کہ اب لوگ معیاری پروگرامز دیکھنا ہی نہیں چاہتے یا شاید اب اس قسم کی تحریروں کا زمانہ ہی نہیں رہا، لوگ جس طرح سے سنجیدگی سے کتابیں نہیں پڑھتے اسی طرح سے اچھے ڈرامے نہیں دیکھتے۔‘

ان کی سچائی اور کھرے پن کا ایک واقعہ خود ان کی زبانی سنیئے۔’میں نے جنرل ضیاءالحق سے پرائیڈ آف پرفارمنس لینے سے انکار کردیا، ہوا یوں کہ مجھ سے کہا گیا کہ حکومت آپ کو پرائیڈ آف پرفارمنس دینا چاہتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کون دے گا ، جواب آیا کہ جنرل ضیاءالحق دیں گے، میں نے اسٹیبلشمٹ والوں سے کہا کہ میں ضیاءالحق جیسے غلیظ آدمی کے ہاتھ سے کوئی ایوارڈ نہیں لوں گا۔‘

اگر کمال احمد رضوی آج زندہ ہوتے تو شاید حکومت سے بہت خوش ہوتے کیوں کہ وہ عمران خان کو بہت پسند کرتے تھے اور ان سے انہیں بے حد امیدیں وابستہ تھیں۔ ان کا کہنا تھا۔ ’مجھے عمران خان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں بصورت دیگر پورا ملک تباہی کے دہانے پر ہے، یہ چلے جائیں گے تو پھر ایسی ہے ہی لوگ آجاتے ہیں، انتہائی منظم طریقے سے لوگوں کو تخت پر چڑھایا اور اُتارا جاتا ہے۔‘

میں اپنی بات کا اختتام کمال احمد رضوی کی اس بات سے کروں گی۔ ”جب میں 24-25 سال کا تھا اس وقت میں دنیا کو اپنے ہاتھ سے موڑ دینے کا خواہاں تھا۔ میں اپنی نئی نسل سے توقعات رکھوں گا کہ اب وہ کچھ کریں گے، آپ اس معاشرے کو بدلیں گے، اس تعفن زدہ معاشرے کی گندگی کو محسوس کرتے ہوئے آپ اس کو تبدیل ضرور کریں گے۔‘

یقیناً کمال احمد رضوی جیسے نابغہ روزگار لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ آج وہ ہم میں نہیں ہیں لیکن ہم انہیں اسی عزت و احترام سے یاد کررہے ہیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ اللہ تعالیٰ جنت کے ان کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)


ہم نیوز یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ٹاپ اسٹوریز