محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کو ہم سے بچھڑے ایک سال اور گزر گیا۔ مجھے یاد ہے جب لیاقت باغ کے جلسے کے بعد محترمہ کو نشانہ بنایا گیا تو میں چند کلومیٹر کے فاصلے پر راولپنڈی میں ہی موجود تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسا کوئی بہت ہی قریبی شخص ہم سے بچھڑ گیا ہو۔ بھٹو خاندان سے محبت اور سیاسی عقیدت بچپن سے ہی گھر میں دیکھی۔
والد صاحب نے ایک سرکاری ملازم ہونے کے باوجود ضیاء دور میں بھی کبھی بھٹو صاحب کی حمایت کرنا نہ چھوڑی، ہمارے گھر میں بھٹو صاحب اور محترمہ کی تصاویر آویزاں تھیں۔
بحیثیت صحافی آپ کو اکثر اپنے جذبات کو نظرانداز کر کے خبر رپورٹ کرنی پڑتی ہے اور میرا تعلق صحافیوں کی اس نسل سے ہے جنھیں پہلے روز سے ہی دھماکوں ، خود کش حملوں اور جنگوں کی خبریں رپورٹ کرنی پڑیں ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے صحافی تھوڑے کم حساس ہو جاتے ہیں، اپنے جذبات کو ایک طرف رکھ کرخبر کو رپورٹ کرنا ان کی زندگی کا معمول بن جاتا ہے۔
لیکن دو مواقع ایسے آئے جب میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور خبر کی تفصیل نکالنے بجائے میری آنکھوں سے آنسو نکلے، ایک جب دو برس تک اسرائیلی فوج کے گھیرے میں رہنے کے بعد یاسر عرفات کو علاج کے لیے رامااللہ کے صدارتی کمپاؤنڈ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لے جایا گیا تو نہ جانے کیوں مجھے یہ لگا کہ کئی عشروں تک فلسطینیوں کی آزادی کی جنگ لڑنے والا یاسر عرفات شاید کبھی اب اپنی زندگی میں فلسطین کی سرزمین پر قدم نہ رکھ سکے، اور پھر ہوا بھی ایسے ہی ، فرانس سے یاسرعرفات کی میت ہی واپس آئی۔
دوسری بار میں زاروقطار تب رویا جب محترمہ ہلاکت کی خبر ٹی وی پر دیکھی۔ اگرچہ مجھے کافی برس قبل ہی یہ احساس ہوگیا تھا کہ بھٹو خاندان کی جو سیاسی عقیدت ہمیں بچپن سے سکھائی گئی ہے اس کی بدولت ہم ایک عرصے تک ان کی اقتدار کی جنگ کو عوام کے حقوق کی جنگ سمجھتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود محترمہ اور بھٹو خاندان کے لیے نرم گوشہ ہمیشہ دل میں رہا۔
محترمہ کی برسی کے موقعے پر ایک بار پھر انھیں ہر طبقعے کے لوگ خراج تحسین پیش کر رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں محترمہ ایک بہترین سیاست دان تھیں جن کی سیاست کا مقصد اپنی جماعت اور اپنے خاندان کو اقتدار میں رکھنا تھا، جب وہ اس دنیا سے گئی تو اپنی وصیت میں اپنے شوہر آصف زرداری ، جنھیں وہ اپنی حیات میں پارٹی معاملات سے دور رکھتی تھیں ، کو پارٹی کر سربراہ بنا گئیں۔
محترمہ کو حقیقی خراج تحسین ہم تبھی پیش کر سکتے ہیں جب ہم ان کی اصل کامیابیوں کو اجاگر کریں۔ بھٹو خاندان اور محترمہ کی جنگ نہ جمہوریت کے لیے تھی اور نہ ہی عوام کے حقوق کی خاطر تھی، یہ ایک اچھے سیاست دان کی طرح اپنے خاندان اور جماعت کو اقتدار میں رکھنے کی جنگ ہے، بھٹو صاحب سے لے کر محترمہ تک اور جنرل ایوب سے لے کر مشرف کے این آر او تک اس خاندان نے یہ جنگ خوب لڑی ہے۔ اب بلاول بھی یہ جنگ احسن طریقے سے لڑ رہے ہیں۔