2 اکتوبر2017 کی صبح تقریباً ڈیڑھ بجے کا وہ وقت میری یادداشت سے کبھی محو نہیں ہو سکتا جب میں Bill Maher کا شو دیکھ رہا تھا کہ میرا بیٹا دوڑتا ہوا میرے کمرے میں آیا اور خوفزدہ لہجے میں بتانے لگا کہ ابھی ابھی سی این این نے بتایا ہے کہ لاس ویگاس میں ایک شخص نے فائرنگ کر کے دہشت پھیلا دی ہے۔ میرے دل سے فوراً دعا نکلی کہ کاش یہ کسی مسلمان کی کارروائی نہ ہو-
لاس ویگاس میں ایک میوزک فیسٹیول کے د وران فائرنگ کے نیتجے میں 58 افراد ہلاک اور 500 زخمی ہوئے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس واقعہ کے بعد میڈیا نے کسی تحقیقات سے پہلے ہی مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر دہشت گردی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دینے کے بجائے اپنی توجہ اور بحث و مباحثوں کا موضوع اسلحہ پر پابندی اور فائرنگ کرنے والے کے حالات زندگی پر مرکوز رکھی۔
ابھی اس واقعہ کو چار ہفتے ہی گزرے تھے کہ 31 اکتوبر کو ایک ازبک باشندے نے میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر مین ہٹن کے مغربی علاقے میں بائیک لین پر پیدل چلتے شہریوں پر ایک پک اپ گاڑی چڑھا دی جس سے 8 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا اُس وقت میری بیٹی اسکول میں تھی اور یہ مقام اس اسکول سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔ یہاں 8 معصوم افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس حملہ آور کے موبائل میں ریاست اسلامی کے پروپیگنڈے پر مشتمل کچھ ویڈیوز پائی گئیں۔
اس واقعہ کی کوریج کے دوران میڈیا کی زیادہ توجہ آئی ایس آئی ایس، اسلامی ذہن اور دہشت گردی کی بنیادی وجوہات پر مرکوز رہی، دراصل زمانہ موجود میں امریکہ کوصرف اُن انتہا پسند عناصر کا سامنا ہے جو آئی ایس آئی ایس کے نظریات و خیالات سے متاثر ہیں ۔
آلٹ رائٹ (Alt Right)
ان لوگوں نے ڈیجیٹل عہد کے لحاظ سے خود کو کافی منظم کر لیا ہے اور خود کو آلٹ رائٹ کہتے ہیں، یہ دراصل امریکہ میں دائیں بازو کی سفید فام تنظیم ہے۔ اس سال ریاست ٹیکس کے شہر الپاسو میں فائرنگ کے واقعہ کے بعد ملک بھر میں سیاہ فام قوم پرستی اور دائیں بازو کی دہشت گرد کارروائیوں پر ایک باضابطہ بحث چھڑ چکی ہے۔
جنوری 2018 کے دوران شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018 کے دوران امریکہ میں انتہا پسندی کے نتیجے میں جو افراد ہلاک ہوئے ہیں، ان کا دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے تعلق رہا ہے۔
اس رپورٹ میں پیش کردہ حقائق امریکہ میں دہشت گردی پر آزاد ذرائع سے کی گئی تحقیقات سے بھی مطابقت رکھتے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دائیں بازو کی انتہاپسندی اور تشدد کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2018 کے دوران انتہا پسندی سے جڑے واقعات میں 50 افراد ہلاک ہوئے، اس طرح اب تک کے دستیاب ریکارڈ کے مطابق 1970 کے بعد یہ ملک کے اندر انتہا پسندی سے جڑا تشدد کا سبب سے المناک اور بڑا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
2018 میں یونیورسٹی آف الباما نے ایک تحقیق شائع کی جس میں بتایا گیا کہ جو حملے مسلمانوں کی جانب سے کئے گئے ہیں میڈیا میں اُن کی 105 اوسطا ً ہیڈ لائنز لگائی گئی ہیں ، لیکن جن واقعات میں دیگر گروپس ملوث تھے ان کی صرف 15 سرخیاں جم سکیں ۔ مشہور اخبار گارڑین لکھتا ہے کہ مسلمانوں سے جڑے واقعات کو دیگر گروپس کی نسبت 357 فیصد زیادہ کوریج ملتی ہے۔
امریکہ میں قائم ایک غیر منافع بخش یہودی تنظیم دی اینٹی ڈیفے میشن لیگ (اے ڈی ایل) ہہ اقرار کرتی نظر آتی ہے کہ اگرچہ امریکہ میں حقیقی سخت گیر دہشت گردی کا عنصر توموجود ہے ، لیکن اس میں صرف مسلمان ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیمں اور انفرادی طور پر بعض افراد بھی شامل ہیں، ایسی تنظیموں اور افراد کی جانب سے دہشت گردی کا خطرہ ہرو قت موجو درہتا ہے۔ امریکہ میں دائیں بازو کی انتہاپسند تنظیمیں فرانس کی دائیں بازو کی جماعتوں سے مدد اور حمایت حاصل کرتی ہیں۔
امریکہ کا انتہائی دائیں بازو کا گروپ اپنے زیادہ تر خیالات و نظریات فرانس کے دائیں بازو کے دانشور طبقے سے لیتا ہے۔ باریک بینی سے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکی اور یورپی انتہا پسندوں کے درمیان بہت سی چیزوں میں مماثلت پائی جاتی ہے جن میں مساوی انسانی حقوق اور یکساں مواقع کی فراہمی سے انکار شامل ہیں، اسی طرح وہ جمہوریت اور انسانی برابری کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کا آلٹ رائٹ گروپ فرانسیسی دانشور ایلین ڈی بیوئسٹ کے نظریات سے متاثر اور اُن کی خیالات کی پیروی کرتا نظر آتا ہے۔ یورپ کے اندر پنپنے والی نیو رائٹ تنظیم اسی فرانسیسی دانشور کے ذہن کی تخلیق ہے اور امریکی آلٹ رائٹ گروپ اسی کا پیروکار ہے، اس گروپ کے ذہن کی خاص بات یہ ہے کہ نہ صرف یہ آزاد مارکیٹس ، نیولبرل ازم، جمہوریت اور انسانوں کے مساوی حقوق دینے کے خلاف ہے بلکہ اپنے اس نظریے کا سرعام پرچار بھی کرتا ہے۔
دانشورایلین ڈی بیوئسٹ The Problem of Democracy and Beyond Human Rights سمیت اب تک پچاس کتابیں لکھ چکے ہیں۔
ادھر امریکی انتہاپسند دانشور طبقے میں ناراض اور غصے سے بھرے فرانسیسی صحافی اور مصنف گلیومی فائے بھی شامل ہیں۔ وہ “Archeofuturism – European visions of the post-catastrophic age; Why we Fight” جیسی ایک کتاب کے مصنف ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے قاری اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ انہوں نے جس طرح یورپی مزاحمتی تحریک اور نقصانات وغیرہ کا نقشہ پیش کیا ہے، انہی نظریات کو آلٹ رائٹ کے منشور میں ترجیحی حیثیت حاصل ہے، تاہم یورپی عوام کے برعکس مذہبی و بنیاد پرست نظریات کی پیروکارانتہائی دائیں بازو کی امریکی تنظیم مقدس صحیفوں اورکتابوں کو اپنی انتہا پسندی کی وضاحت کے طور پر پیش کرتی ہے۔
مثال کے طور پر اُس کا خیال ہے کہ آریائی قومیں ہی مذہبی صحیفوں کے ذریعے انسانوں کے درمیان نسلی برتری کے نظریے کو فروغ دیتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ “خدا کی جانب سے حضرت آدم کی تخلیق درحقیقت اس کرہ ارض پر سفید فام نسل کے حق حکمرانی کی نشانی ہے، زمین پر موجود تمام نسلیں حضرت آدم کی اولاد نہیں ہیں کیونکہ حضرت آدم تو صرف سفید فام نسل کے جد امجد تھے۔ انہیں یقین ہے کہ بائبل کے حقیقی اور سچے بیٹے محض اسرائیل کے 12 قبائل تھے اور وہی بارہ بیٹے اس وقت کرہ ارض طول وعرض میں موجود ہیں، انہی کی نسلوں کو اب ہم اینگلو سیکسن ، جرمن، ٹیوٹونک، اسکینڈی نیوین اور سیلکٹ کے نام سے جاننے لگے ہیں ۔
میں نے اس تحریک کی بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو سمجھنے کے لئے سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک میں Austin W. Marxe School of Public and International Affairs کے پروفیسر تھامس جے مین کی تحریروں کا مطالعہ کیا۔ بروکنگ انسٹی ٹیوشنز نے حال ہی میں تھامس جے مین کی کتاب “The Rise of the Alt-Right.” شائع کی ہے۔ پروفیسر صاحب اپنی اس کتاب میں فرماتے ہیں کہ دراصل ““Alt-Rightism اپنی روح کے لحاظ سے ایک تحریک نہیں بلکہ ایک سیاسی نظریہ ہے، آپ اس کو ایک انتخابی حلقہ یا اپنے مفادات کاتحفظ کرنے والا گروپ بھی سمجھ سکتے ہیں اور اس کے سیاسی نظریہ ہونے کے تصور کو گروپ کی بعض مطبوعات تقویت بخشتی ہیں ۔
Counter Current اور AltRight talk about جیسی ویب سائٹس نظریاتی سیاست کو ترقی و ترویج دیتی ہیں۔ یہ وہ سیاسی نظریہ ہے جس کا نقشہ پہلے پہل Alain de Benoist اور پھرGuillaume Faye کے ذہن میں ابھرا جس کے بعد انہوں نے اس کا باقاعدہ تصور پیش کر دیا۔ اب ان تنظیموں کے لئے لوگوں کے انداز فکر کو تبدیل کرنا ایک ناگزیر امر بن چکا ہے۔ تھامس جے مین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حالیہ چند عشروں کے دوران Alt-Right دراصل ، دائیں بازوں کے انتہا پسندوں سے کہیں زیادہ سخت گیر اور انتہا پسند تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے۔
پروفیسر تھامس جے مین کو یقین ہے کہ اس تحریک نے اگست 2017 میں ورجینیا میں جو ریلی نکالی تھی، وہ پہلی بار اس کی طاقت کا جامع اظہار تھی اور یہی عوام میں بڑے پیمانے پر اس کی پہچان کی وجہ بنی۔ آگے چل کر وہ بیان کرتے ہیں کہ اپنی کار ” یونائٹ دا رائٹ ریلی” سے ٹکرانے والا بیس سالہ نوجوان جیمز ایلکس فیلڈز جونیئر وہی شخص تھا جو پہلے نیو نازی ازم اور سفید فام نسل کی برتری کا کٹر حامی رہ چکا تھا۔
ڈیوڈ نیورٹ ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ “Alt-America: The Rise of the Radical Right” نامی اپنی کتاب میں وہ اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ alt-right کا نظریہ ماضی میں نفرت کا پرچار کرنے والے امریکی سفید فام گروپ Ku Klux Klan سے مماثلت رکھتا ہے، تاہم اسی لمحے وہ اس بات پر اتفاق کرتے نظر آتے ہیں کہ دائیں بازوکے نئے سخت گیر گروپس یا تنظیموں کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے نہ صرف زبردست فائدہ پہنچا ہے بلکہ یہ میڈیم انہیں غیر معمولی پذیرائی دینے میں بھی بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔ پروفیسر مین دعویٰ کرتے ہیں کہ “اس نئے سخت گیر خیالات کی حدیں قدیم نظریات سے بھی کہیں بڑھ کر ہیں جبکہ ماضی میں ایسے نظریات کا پر چار اور تبلیغ بلاشبہ ایک بری روایت رہی ہے۔ Alt-Right گروپ دوسری صدی کی عیسائی تحریک Gnosticism کی ایک شاخ ہے ۔ یہ تحریک دراصل امریکی جمہوری روایات کی نفی کرتی ہے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے 1930 کے عشرے میں کمیونسٹ پارٹی تھی یا پھر 1960کے عشرے کی نئی بائیں بازو کی شدت پسند جماعت تھی۔
ایری پرلیگر ایک دانشو ر ہیں اور ویسٹ پوائنٹ میں یو ایس ملٹری اکیڈمی کے ڈپارٹمنٹ آف سوشل سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفسیر کے طور پر ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں ۔پروفیسر صاحب اس معاملے کو مختلف تناظر میں دیکھتے ہیں ۔وہ اپنی کتاب
“Challengers from the Sidelines: Understanding America’s Violent Far-Right,” میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکی شدت پسند تنظیم far right کے نظریات اور اور اس کا عمل ایک ادارہ جاتی فریم ورک کے اندر ایک دوسرے سے جڑا ہے ۔ نظریاتی نکتہ نظر سے دیکھیں تو یہ عمل اور رویہ بعض دانشور حلقوں میں اس تاثر کی نشاندہی کرتا ہے کہ شدت پسند گروپ اور اُن کے مخالفین دہشت گردی کو ایک علامت کے طور پر نہ صرف پیش کرتے ہیں بلکہ اس کا پرچار بھی کرتےہیں ۔
اب آیئے ایک نظر دہشت گردی کی تعریف پر ڈالتے ہیں، مگر ٹھہریں، اگر آپ تعریف کے لحاظ سے دہشت گردی کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو یہ بات اور نظریہ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ نہ آپ اس کو اسلام سے جوڑ سکتے ہیں نہ عیسایت سے، لیکن اس افسوس ناک پہلو سے بھی نظر نہیں چرائی جا سکتی کہ حالیہ چند سالوں کے دوران دہشت گردی کے عمل کو وسیع تناظر میں مذہب سے جوڑ کر اسی طرح کا نام دے دیا گیا ہے۔ درحقیقت اس سے دانشور طبقےکے درمیان یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا انتہا پسندی اور مذہبی صحیفوں کے درمیان کوئی تعلق موجود ہے یا نہیں؟ یہاں میں یہ ذکر بھی کرتا چلوں کہ بعض مصنف حضرات تو دہشت گردی کی تاریخ کو غلط انداز میں’ بوسٹن ٹی پارٹی” سے جوڑ دیتے ہیں۔ اس واقعہ کا تو پس منظر ہی مختلف ہے۔ ‘بوسٹن ٹی پارٹی” والا واقعہ تو دراصل 16 دسمبر 1773 میں بوسٹن میں ایک سیاسی احتجاج کا نتیجہ تھا جس کا ہدف 10 مئی 1773 کو منظور کیا گیا ایک ‘ ٹی ایکٹ” تھا۔ یہ وہ ‘ٹی ایکٹ’ تھا جس کے تحت برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو یہ اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ چین سے چائے خرید کر امریکہ لائے اور پھر امریکہ کے زیر تسلط علاقوں میں فروخت کرے۔
اب یہ تحریر 60 اور 70 کی دہائی کے ذکر کے بغیر بھی مکمل نہیں ہوتی۔ 1960 اور 1970 کے عشروں کے دوران جو بنیاد پرستی موجود تھی اس کے بعد امریکہ کے شہری اوربڑے علاقوں میں صدر ریگن عہد کی قدامت پسندی کا آغاز ہو گیا تھا اور اس کےساتھ ہی سیاسی تشدد کا عنصر بھی نمایاں ہوا۔ یوں 1980 کی دہائی میں نیو نازی گروپس کی طرح خود کو دوسری قوموں پر فوقیت دینے والی سفید فام اور آریائی قوموں نے پھر سے سر اٹھا لیا۔ اس کی یہ اٹھان بھی عام سفید فام مزدور طبقے میں تھی۔
یہ 1980 اور 1990 کے ہی عشرے تھے جب عیسائی مذہب کے نام پر دہشت گردی کو نہ صرف فروغ ملا بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو گیا۔ بنیاد پرست تنظیموں اور انفرادی طور پر لوگوں نے جس طرح تشدد کا راستہ اپنایا وہ بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے۔ اس پُرتشدد رویے کے پیچھے اسقاط حمل روکنا سب سے نمایاں عنصر تھا، یہاں تک کہ 1980 کی دہائی میں اسقاط حمل کے کلینکس پر بم حملوں کے جرم میں خود کو خدائی فوجدار سمجھنے اور کہلانے والی تنظیم کے سربراہ مائیکل برے کو چار سال جیل بھی بھگتنی پڑی۔
اب 90 کا عشرہ شروع ہوتا ہے، اس دوران 1999 میں ملک کے اندر اب تک کا سب سے بڑا تشدد کا واقعہ سامنے آیا جب ٹموتھی میگ وے نامی شخص نے اوکلاما سٹی کی ایک عمارت پر بم حملہ کر دیا۔ اس حملے کے نیتجے 168 افراد لقمہ اجل بنے۔ ٹموتھی میگ وے نے اپنے بیان میں اقرارجرم کیا کہ اس کا مقصد وفاقی حکومت سے انتقام لینا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ حکومت ناانصافی کر رہی ہے، اسی طرح کا ایک اور شخص ڈین ہاروے ہیکس ہے، جہاں دیگر بہت سے معاملات پر اس کے اندر غصہ بھرا تھا وہیں وہ ٹیکسوں کے بوجھ سے سخت نالاں تھا، اسی نے ایک فرد پر مشتمل دہشت گر دگروپ Up the IRS, Inc.”‘ بنایا اور آئی آر ایس کے زیر انتظام مختلف مقامات پر بم حملوں کی کوشش بھی کی۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران اور خصوصی طور پرسال 2007 کے بعد حملوں اور تشدد کے واقعات کی منصوبہ بندی کے واقعات میں جو حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے، اس کے پس پردہ تنظیمیں اور بعض افراد کا انفرادی فعل شامل ہے جو اپنا تعلق امریکی سیاست کی far-right جماعت کے ساتھ منسلک کر کے پیش کرتےہیں۔ ان واقعات نے اہل دانش اورعام آدمی کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آیا یہ سب کچھ مختلف عناصر کا انفرادی عمل تھا یا کسی بڑھتے رجحان کی عکاسی کرتا ہے؟ کیا یہ معاشرتی تشدد میں اضافے کا اظہار ہے یا ایسے حالات کے پس پردہ کچھ اورعوامل بھی کارفرما ہیں۔ گہرے مطالعے سے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ میں اب تک اندرونی طور پر تشدد کی وجوہات جاننے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لئے کسی باضابطہ نظام کے تحت دستاویزی شکل میں نہایت محدود پیمانے پر کام ہو سکا ہے ۔