لاہور سے چالیس کلومیٹرپر واقع بابا بلھے شاہ کا شہر قصور فیروزپور روڈ کے راستے لاہور سے منسلک ہے جسکی دوسری طرف بھارتی شہر فیروز پور واقع ہے جبکہ اسکی کچھ تحصیلیں بذریعہ ملتان روڈ بھی لاہور اور اوکاڑہ سے جڑی ہوئی ہیں، عام طور ہر سردیوں کے موسم میں اس شہر کے دریائے ستلج کی مچھلی اور میٹھی سوغات اندرسے بہت مشہور ہیں مگر پچھلے کچھ سالوں سے اس شہر کی وجہ شہرت مثبت کے بجائے منفی ہو گئی ہے۔
آجکل ضلع قصور ایکبار پھر سے خبروں میں آیا ہوا ہے اور وجہ وہی ہے جو پچھلے کئی سالوں سے بن رہی ہے، اب کی بار قصور کا نواحی علاقہ چونیاں خبروں میں نمایاں ہے جہاں تین کمسن بچوں کی لاشیں ملی ہیں جبکہ ایک قابل شناخت نعش کے پوسٹمارٹم میں ڈاکٹروں نے زیادتی کا شبہ بھی ظاہر کیا ہے، اس پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق معصوم کو گلہ دبا کر قتل کرنے کے بعد اونچائی سے نیچے پھینکا گیا جس سے اسکی ہڈیاں بھی ٹوٹ چکی تھیں۔ باقی دونوں بچوں کی ملنے والے نعشیں ناقابل شناخت تھیں اور صرف ہڈیاں موجود تھیں۔ بہرحال نمونے ڈاکٹڑز نے فرانزک کے لیے بھجوا دیے ہیں جنکی رپورٹ آنے کے بعد انکی موت کا تعین ممکن ہو سکے گا۔
پہلے کچھ ذکر پچھلے واقعات کا ہو جائے۔ تقریبا چار سال قبل بچوں اور ٹین ایجرز کی مبینہ زیادتی کی ویڈیوز بنا کر انھیں انٹڑنیٹ پر اپ لوڈ کرنے اوربعد ازاں متاثرہ بچوں کے خاندانوں کو بلیک میل کرنے کا اسکینڈل منظر عام پر آیا جس نے ملکی اور عالمی سطح پرمیڈیا میں توجہ حاصل کی جس کے بعد اس وقت کی حکومت حرکت میں آئی، تفتیش شروع ہوئی، ذمہ داروں کا تعین کر کے مقدمات درج کیے گئے اور بڑے پیمانے پر ضلع میں اس حوالےسے آگاہی مہم چلائی گئی تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کا تداراک ممکن ہو سکے مگر افسوس کہ کچھ عرصہ بعد مختلف وجوہات کی بناء پرمتعدد کیسز میں نا صرف نامزد ملزمان کی ضمانتیں ہو گئیں بلکہ متاثرہ افراد اور بچوں کی اکثریت نے یا تو صلح کر کے چپ سادھ لی یا پھر بدنامی کے ڈر سے علاقہ چھوڑ کر نامعلوم مقام پرمنتقل ہو گئے۔
مقمدمات کے مدعیوں کی اکثریت حکومت سے نالاں رہی اور انکا یہی موقف تھا کہ حکومت نے صرف زبانی جمع خرچ کیا ہے اور غربت کے باعث انکے لیے ان کیسز کی مسلسل پیروی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے مدعیوں پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے ملزمان سے رقم لیکر یا تو صلح کرلی یا پھر ان مقدمات کی پیروی نہیں کی جسکی وجہ سے یہ جتنا بڑا اسکینڈل تھا اس میں ملزمان کو فائدہ پہنچا۔ جبکہ اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے اراکین اسملبلی اور بلدیاتی نمائندوں پر ان کیسز پر اثر انداز ہونے الے الزامات لگتے رہے۔
دوسری بار معصوم زینب قتل کیس نے تو جیسے اس شہر میں آگ لگا دی، ایکبار پھر جب معاملہ میڈٰیا کے ذریعے اٹھایا گیا تو حکومت وقت کو ہوش آیا اور معلوم ہوا کہ اکیلی زینب نہیں بلکہ اس سے قبل سات اور معصوم بچیاں بھی اس سیریل کلگنگ کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں، بالآخر اس کیس میں پولیس نے جدید سائنسی ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ملزم کو پکڑ لیا جسے بعد ازاں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔۔ اس کیس کے بعد بس ایک گمان تھا کہ اب قصور کبھی اس طرح کی خبروں کی وجہ سے میڈیا کی زینت نہیں بنے گا مگروہ پورا نا ہوسکا اور اب ایکبار پھر سے ایک نئے اسکینڈل نے جنم لیا ہے جس میں نامعلوم قاتل نے تین کمسن بچوں کی زنگی کی ڈور کاٹ ڈالی، وہ کلیاں جنھوں نے ابھی کھلنا تھا وہ اس سے قبل ہی مرجھا گئیں۔
دیگر واقعات کی طرح اس واقعے میں حکمرانوں نے ڈی پی او سمیت متعلقہ پولیس حکام کو غفلت اور کوتاہی پر معطل اور ٹرانسفر کردیا، فرق صرف یہ ہے کہ اسوقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اوراب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ وہی دعوے، وہی باتیں، وہی بیان، وہی ہمدردیاں، وہی دلاسے، وہی آسرے اور وہی حرکتیں، صرف چہرے بدلے ہیں نظام نہیں۔
اگرقصور کے ان تینوں بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر ڈالی جائے تو پولیس کی بدترین روایت کی مثالیں دیکھنے کو ملیں گی۔ تینوں واقعات میں معاملات کو فوری تھانے کی سطح پر پولیس کے نوٹس میں لایا گیا مگر افسران کے کانوں پر جوں تک نا رینگی، پہلے واقعہ میں پولیس حالات و واقعات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے اس ذاتی فعل قرار دیا، دوسرے سانحے میں پولیس تسلسل سے رونما ہونے والے ان واقعات کے مقدمات نعش ملنے کے بعد درج کرتی رہی بلکہ افسران کے سامنے نمبر بنانے کے لیے معصوم اور بےگناہ افراد کو اعتراف کرا کرجعلی پولیس مقابلوں میں پار بھی کر ڈالا اور اپنی طرف سے تو ان کیسوں کو افسران کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ختم کر ڈالا جبکہ اب تیسرے سکینڈل میں جب لاپتہ بچوں کے والدین تھانے میں انکی گمشدگی کی اطلاع دیتے رہے تو انھیں یہ کہا جاتا رہا کہ وہ ڈانٹ ڈپٹ کے باعث خود ہی گھروں سے بھاگ گئے ہوں گے اور انھیں ایدھی سنٹرز جانے کا مشورہ دیا جاتا رہا۔
اگر ان بچوں کی اتفاقا نعشیں برآمد نا ہوتیں تو پولیس ریکارڈ میں انھوں نے بغیر مقدمات کے لاوارث ہی رہنا تھا جو گھروں سے بھاگ گئے تھے، اور ایکبار پھر وہی ہوا جو ہر دفعہ ہوتا آ رہا تھا یعنی پہلے تو ملبہ نچلے افسران پر ڈالا گیا جو اسکے ذمہ دار تھے اور اوپر کے افسران کو بچا لیا گیا، پھر جب وزیراعظم پاکستان نے آئی جی پنجاب عارف نواز کی سرزنش کی تو مجبورا انھیں ڈی پی او کو تبدیل کرنا پڑا۔ بہرحال انکا فرض تو بنتا تھا کہ جب یہ بچے لاپتہ ہو رہے تھے تو وہ نچلے افسران پر تکیہ کرنے کے بجائے خود یہاں آتے، اس کوتاہی کا نتیجہ انھیں اس پوسٹ سے ہاتھ دھونے کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔
بہرحال اب ایکبار پھر سے اسی ٹیم کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے جس نے زینب قتل کیس مجرم علی عمران کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس حکام اس وقت جدید ترین سائنسی اور روایتی طریقے ساتھ ساتھ استعمال کر رہے ہیں اور علاقے میں شدید خوف کی فضا ہے، ہر شخص دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے، ماؤں نے بچوں کا اکیلا گھر سے نکلنا بند کر رکھا ہے، جس گلی، جس محلے اور جس ڈیرے ہر جائیں وہاں بس لوگوں کے پاس ایک یہی بات ہے، ہر کوئی اس بات کا منتظر ہے کہ کب ملزم یا ملزمان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پنچایا جائے۔ اور تو اور اب تو لوگ یہ بھی بتانے سے گریز کرنے لگ گئے ہیں کہ انکا تعلق قصور سے ہے حالانکہ بابا بلھے شاہ کے اس شہر قصور کا کیا قصور۔۔۔۔