وہ جو ملنے سے گریزاں تھے، بالآخر دانش مندوں کی طرح مل بیٹھے اور کچھ کام کی باتیں بھی ان کے بیچ ہو گزریں۔ گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عمران خان نے نیویارک جانے سے گریز کیا تھا۔ کسی بھلے مانس نے ان سے پوچھ لیا کہ خان صاحب! اچھا ہوتا اگر موقع سے فائدہ اٹھا کر آپ بھی ایک چکر امریکہ کا لگا آتے۔ منہ میں آئی ہر بات دھڑ سے کہہ ڈالنے والے حکمران نے کہا کہ اگر اس موقع پر زبان دراز ٹرمپ کچھ کہہ گزرتا اور جواب میں میرے منہ سے بھی کچھ نکل جاتا تو پھر کیا ہوتا؟ پھر ایسا کیا ہوا کہ اپنی اپنی زبانوں کے اسیر دونوں حکمران مل بیٹھے، تلخی کا تو ذکر ہی کیا، سب کچھ ہی مٹھاس میں بدل گیا۔ یہ بات ایسی ہی ہے جیسا عمران نے کہا کہ ورلڈ کپ جیت لیا۔
ہمارے ہاں ایک محاورہ ہے، نمازیں بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے۔ امریکہ یاترا کے بعد اب میں سوچتا ہوں کہ کاش کوئی محاورہ اس کے الٹ بھی کسی کو سوجھا ہوتا۔ لگتا ہے کہ ذہن ساتھ دے رہا ہے، یوں کہہ لیجئے کہ ڈنڈ بھرنے گئے تھے، انعام سمیٹ لائے۔
تفنن برطرف، اس وقت ساری کہانی تو افغانستان کے گرد گھوم رہی ہے اور امریکہ اس دیس کے کوہساروں میں دو دہائیوں تک خاک پھانکنے کے بعد عزت سے نکلنے کا متمنی ہے اور اس کار خیر میں پاکستان کی خدمات کا طلب گار۔ مقصد اچھا ہو اور فریقین کا اس میں بھلا بھی ہو تو اس میں انکار کی کیا گنجائش؟ ہماری طرف سے بھی کہا گیا کہ بسر و چشم۔
بات کے یہاں تک پہنچ جانے میں تو کسی کو اچھنبا نہیں۔ اصل حیرت تو ہمارے عظیم ایم میاں کے اٹھائے ہوئے سوال کے نتیجے میں پیدا ہوئی جس کے جواب میں غیرمتوقع باتیں کہنے والے امریکی رہنما نے کشمیر کا ایسا نہلا دے مارا ہے کہ ساری دنیا کے کان کھڑے ہو گئے ہیں۔ بھارت میں اس پر جو ہاہاکار مچی ہے، وہ بھی قابل فہم ہے لیکن سو سوالوں کا ایک سوال یہی ہے کہ آخر یہ ہے کیا؟
اب تو نہایت آسانی کے ساتھ یہ کہنا بھی ممکن نہیں رہا کہ یہ ایک بونگی تھی کیونکہ صدر ٹرمپ کے مشیر نے کہہ دیا ہے کہ ان کے رہنما کوئی بات بے بنیاد اور بے سوچے سمجھے نہیں کرتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وضاحت کے بعد اس معمے کو سمجھنا نسبتاً آسان ہوجانا چاہئے۔
تو آسان بات شاید یہ ہے کہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش ایک طرح سے باہمی رضا مندی کا سودا ہے۔ بھارت کی اٹوٹ انگ کی رٹ اپنی جگہ اور بھارتی حزب اختلاف کی طرف سے 56 انچ کی چوڑی چھاتی والے مودی کے لیے جانے والے لتے بھی برحق لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ بھارت خود اس معاملے کو نمٹانے کی فکر میں ہے کیوں کہ چائے فروش مودی بھی ڈیل ماسٹر ٹرمپ کی طرح ایک کلغی اپنے ماتھے پر سجانے کا خواہش مند ہے اور وہ کلغی ہے، سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت۔
جب تک کشمیر کا ڈھول بھارت کے گلے میں پڑا ہے اور ڈھما ڈھم بجے جا رہا ہے، اس معاملے میں ذرا بھی پیش رفت نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ٹرمپ اگر یہ کہتے ہیں کہ مودی نے ان سے ثالثی کرانے کی درخواست کی ہے تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔ میرا اندازہ ہے کہ اگر حزب اختلاف نے چائے فروش کو زیادہ زچ نہ کر دیا تو وہ ذاتی طور پر ٹرمپ کے انکشاف کی کبھی تردید نہیں کریں گے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان اور بھارت کا معاملہ ایک بار پھر وہیں جا پہنچا ہے جہاں ایک بار نواز شریف اور واجپائی نے پہنچایا تھا۔ اس کے بعد مشرف اور واجپائی اسی راستے پر چلے، ایک ہلکی سی کوشش نواز شریف اور مودی کے درمیان بھی ہوئی۔ اب یہ گیند عمران کے آنگن میں آ پڑی ہے اور ایک شاندار چھکے کی منتظر ہے۔
کیا یہ سب کچھ آناً فاناً ہوا؟ یعنی ٹرمپ کا انکشاف محض ایک اتفاق تھا؟ میرا اندازہ ہے کہ عظیم ایم میاں کا سوال تو اتفاق ہو سکتا ہے لیکن ٹرمپ نے جو کچھ کہا بقائمی ہوش و حواس کہا اور حکومت پاکستان ہی نہیں، اس کے تمام تر ادارے اور اسٹیک ہولڈر اس سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔
ایسا نہ ہوتا تو گزشتہ چند ماہ کے دوران میں پاکستان میں جو کچھ ہوا، کبھی نہ ہوا ہوتا یعنی مولانا مسعود اظہر سے لے کر حافظ محمد سعید تک کے معاملات محض اتفاقی اقدامات نہ تھے بلکہ اعتماد سازی کی انتہائی سوچی سمجھی کوشش اور جانے بوجھے اقدامات تھے۔
یہ پس منظر ہے جسے میں رضا مندی کی شادی کہتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ اس بات کا کوئی اور کٹا نہ کھلا تو کچھ نہ کچھ ہو رہے گا کیوں کہ اس طرف بھی صفحے پر سب کے دستخط موجود ہیں، ایک پیج والی کہانی اگر کچھ تحفہ دے ہی ڈالے تو برا کیا ہے؟
اس تناظر میں ہمارے لیے یہ ایک شانداراور تاریخی موقع ہے، ایسے مواقع پر جیسا تاریخ میں ہوتا آیا ہے، کچھ سوچنے اور غور و فکر کرنے کے مقامات بھی آتے ہیں جیسے پاک چین گرم جوشی وغیرہ، مگر یہ ایک علیحدہ سوال ہے اور کافی تفصیل طلب ہے، اس لیے آج صرف اتنا ہی۔