اور بازی پلٹ گئی

اور بازی پلٹ گئی

خان نے بازی پلٹ دی ہے۔ دسمبر تک یا اگلے سال وسط تک انتظار کی تاریخ دینے والوں کے لئے خان کا پیغام ہے کہ

کار جہاں دراز ہے
اب میرا انتظار کر

یہ کہ اب خان کی حکومت کہیں نہیں جا رہی۔ اب آپ تیل دیکھیں اور تیل کی دھار دیکھیں۔ ایک زرداری سب پر بھاری کو بھول جائیں۔ بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور مقبولیت کو بھی۔ عمران خان نےغیر معمولی حالات میں امریکہ کا انتہائی کامیاب دورہ کر کے ایک ہی جست میں ان تمام محاوروں کے حقوق اپنے نام کرا لیے ہیں۔

یعنی ” ایک عمران سب پر بھاری۔
بھٹو نواز زرداری سب پر کاری”۔

کہا جا رہا تھا کہ خان صاحب کو دعوت نہیں دی گئی، شہزادہ سلمان نے زبردستی دورہ طے کرایا ہے۔ پھر کہا گیا کہ ورکنگ وزٹ ہے ٹرمپ نے تو نہیں بلایا۔ مخالفین اور ہم جیسے تجزیہ نگاروں نے کئی دن سے ایسے طنز کے وار کر کر کے قوم کا جذبہ کم کر دیا تھا۔ پھر ٹرمپ کی لا ابالی، متلون مزاج بے باک شخصیت کا ہوا بھی ایسا کہ اکثریت کا خیال تھا کہ دورہ امریکہ بس ایک معمول کی کارروائی ثابت ہو گا۔ کسی نے یہ بھی لکھا کہ وزیراعظم کا استقبال ایک کلرک نے کیا۔ اور بریک تھرو تو دور کی بات ملاقات بھی بس سر سری سی ہو گی۔ مگر یہ ہو نہ سکا اوراپوزیشن کا اب یہ عالم ہے کہ تونہیں، تیرا غم، تیری جستجو بھی نہیں۔

اب دورہ جس نے بھی کرایا ہو لیکن عمران خان نے ٹرمپ سے ملاقات سے قبل کیپیٹل ایرینا میں جلسہ رکھ کر بازی پلٹ دی۔ ایسا جلسہ جس میں ہزاروں پاکستانیوں نے پر جوش شرکت کر کے ٹرمپ انتظامیہ کو یہ باور کرا دیا کہ پاکستان میں تخت اقتدار پرایک ایسا حکمران بیٹھا ہے جس پر اسکے عوام جان دیتے ہیں اور ٹرمپ کے ملک میں رہنے والے لاکھوں پاکستانی اسکی سچائی اور ایمانداری اور شخصیت کے گرویدہ ہیں۔ ایرینا میں جلسے کی حکمت عملی کارگر رہی۔ نہ صرف صدر ٹرمپ نے ان کو ایتھلیٹ اور مقبول رہنما کہہ کر مخاطب کیا بلکہ کانگریس نے وزیراعظم  کے امریکہ دورے پر ایک قرارداد پیش کی جس کا متن کسی خراج تحسین سے کم نہیں۔ اسکے چند جملے ملاحظہ فرمائیے۔

Whereas, in July 2018, Prime Minister Imran Khan ran on a platform of fighting corruption and poverty and won with a plurality of seats in the National Assembly, allowing him to seek a coalition with independent members of the Parliament;
Whereas Imran Khan, the 22d Prime Minister of Pakistan represents a new, bold, incorruptible leadership that Pakistan has long sought for many years prior to his ascension: Now, therefore, be it
Resolved, That the House of Representatives—
(1) welcomes the inaugural visit to the United States of the 22d Prime Minister of the Islamic Republic of Pakistan, Imran Ahmed Khan Niazi;
(2) expresses continuing support and commitment to the long and enduring friendship between the United States and the Islamic Republic of Pakistan;
(3) recognizes the sacrifice of and expresses solidarity with the people of Pakistan in their struggle against terrorism as the recent chapter in a resilient and result-oriented partnership;

وطن واپسی پر وزیراعظم کا شاندار استقبال کیا گیا۔ اور یوم تشکر بھی منایا گیا۔ کیا وزیراعظم عمران خان کا یہ دورہ پی ٹی آئی کا کم بیک ہے؟

حکومت کا ایک سال مکمل ہوا۔ گذشتہ ایک برس میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف جتنا نیچے گرا اسکی توقع نہیں تھی۔ حکومت کے پہلے سال ہی معیشت کو درست کرنے کی منصوبہ بندی کا فقدان، ہر روز ایک نیا شوشہ ایک نیا قصہ جنم لیتا تھا۔ پھر حفیظ شیخ کی آمد اور آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج، مہنگائی اور ٹیکسز کا ایسا سیلاب لے کر آیا کہ عوام کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ شبر زیدی صاحب کے ہر روز ایک نئے ٹیکس، ہر روز ایک نئی دھمکی، اشیائے ضرورت کی چیزوں میں ہوش ربا اضافے تک، ان اقدامات نے حکومت کی مقبولیت کو اتنا نقصان پہنچایا کہ لوگ ہر روز یہ سوچتے کہ حکومت اب نہیں کہ تب نہیں۔

اپوزیشن نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، مریم نواز کی جانب سے ویڈیوز سامنے لانے کا تسلسل، جلسے، جلوس۔ لیکن عمران خان قسمت کے دھنی ہیں، ہر مشکل سے نکل جاتے ہیں۔ اب کی بار خان نے ایسا بلا گھمایا کہ گیند سیدھی باونڈری پار جا کے گری ہے۔

ڈر تھا کہ دھن کے پکے صدر ٹرمپ اور وزیراعظم خان آمنے سامنے ہوئے تو کیا غضب ہو گا۔ لیکن صدر ٹرمپ کی خان پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ وہ بار بار وزیراعظم کو دیکھتے، خود سے بڑھ کر ہاتھ ملاتے اور ان کی مقبولیت کا ذکر کرتے رہے۔ انھوں نے کہا:

“میرے لئے انتہائی اعزاز کی بات ہے کہ میں پاکستان کے ایک انتہائی مقبول وزیراعظم سے ملاقات کر رہا ہوں۔ جو ایک عظیم کھلاڑی بھی رہے ہیں۔ بلکہ دنیا کے چند عظیم کھلاڑیوں میں شمار کئے جاتے ہیں”

اس کامیاب دورے کے بعد یہ اعتراض کہ جنرل باجوہ ساتھ کیوں گئے ہیں اب اس فقرے کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ یہ حکمت عملی وزیراعظم کی نہیں آرمی چیف کی ہے، یہ کامیابی حکومت کی نہیں فوج کی ہے ۔ ہمیں اب اس قسم کی بحثوں کو چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ کئی برسوں کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت اور فوج ایک صٖفحے پر ہیں اور یہ طنز کی نہیں تعریف کی بات ہے۔

اس عالمی منظر نامے پر جن مشکلات کا پاکستان کو سامنا ہے اسکے لئے اداروں اور حکومت کو ایک ساتھ مل کر آگے بڑھنا ضروری ہے۔ سو امریکہ کے دورے کی اس کامیابی کو حکومت کی فوج کی بلکہ پاکستان کی کامیابی کہیں تو زیادہ صحیح ہو گا۔ یہ دورہ عالمی امن اور پاکستان اور امریکہ کے بیچ خیرسگالی کا اعادہ ہے۔

مسئلہ کشمیر کا حل اتنا قریب۔۔۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ امریکی صدر خود سے ثالثی کرانے کی بات کرے گا۔ گو ہندوستان کی آمادگی کے بنا یہ ممکن نہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ چاہیں گے کہ وہ یہ اہم ترین مسئلہ حل کرا کر سنہرے حروف میں اپنا نام لکھوا جائیں۔

امریکہ کا دورہ زحمت کے بھیس میں رحمت ثابت ہوا، کہاں پاکستان امریکہ کے سرد رویے سے تنگ آ کر روس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کوششوں میں تھا، امریکہ پاکستان تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار تھے، وہیں امریکہ سے تعللقات کی بحالی کی ایک راہ نکل آئی۔ صدر ٹرمپ نے ہندوستان کو پس پشت ڈال کر کشمیر پر بات کر ڈالی۔ صدر ٹرمپ کا نریندر مودی کو ایکسپوز کرنا اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ ھندوستان سے ہی نہیں بلکہ پاکستان سے بھی اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ وہ افغانستان کے مسئلے کا حل پاکستان کی مدد کے بغیر نہیں دیکھتا۔

کشمیر پر ثالثی کی بات ٹرمپ نے متلون مزاجی کی بدولت نہیں کہی بلکہ یہ ایجنڈے میں شامل کی گئی۔ صدر ٹرمپ نے دیکھ لیا کہ ایک انتہائی مقبول اور مضبوط حکمران ہونے کی ناطے عمران خان بہت سے ایسے مشکل لیکن لامحالہ ضروری فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو اس خطے کو امن کی جانب لے جائیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی طرح عمران خان بھی دھن کے پکے ہیں۔

اہم بات یہ کہ اس دورے کے دوران وزیراعظم کی بے لاگ اور بلا تعصب شخصیت کھل کر سامنے آ گئی۔ انھوں نے کسی بھی موضوع پر حیل و حجت یا مصالحت سے کام نہیں لیا۔ اسامہ بن لادن کا معاملہ ہو، افغانستان کی جنگ کی بات ہو، کشمیر کا مسئلہ ہر موضوع پر بلا لگے لپٹے کھل کر بات کی۔ جس پر یہ تجزیہ بھی کیا گیا کہ یہ کیا کر دیا کہ بات تو فوج کے خلاف چلی گئی۔ لیکن شائد ابھی تک لوگ یہ جان نہیں پائے کہ عمران خان کی حالیہ باڈی لینگوئج بتاتی ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں جو مرتبہ اور مقبولیت دیکھ لی ہے اب ان کے اندر سے اقتدار کے کھو جانے کا ڈر اور خوف ختم ہو گیا ہے۔

اب وہ ہر وہ قدم اٹھائیں گے جو ان کی نظر میں بہتر ہو گا۔ بے شک اسکے لئے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ ان کو اس کی پرواہ نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب وہ افغانستان، ایران، بھارت اور امریکہ سے بیک وقت اچھے تعلقات رکھنے کے لئے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز