بھارت کو مات

عالمی عدالت میں معززجج عبدالقوی احمد یوسف نے محفوظ کیا گیا فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں کلبھوشن کی بریت، ھندوستان واپسی، سزائے موت کی معطلی، سول عدالت میں مقدمے جیسے تمام مطالبات مسترد کر دیے گئے۔ گویا یہ فیصلہ ھندوستان پر کسی سرجیکل سٹرائیک سے کم نہ تھا۔ معزز جج نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے جو سزا سنائی وہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ایک مطالبہ قونصلر تک رسائی تسلیم کیا گیا جو کہ ویانا کنوانشن کے مطابق قانونی جواز رکھتا تھا اور سب جانتے تھے کہ ھندوستان کا یہ مطالبہ مان لیا جائے گا۔

عالمی عدالت میں کلبھوشن کا کیس لے جا کر ھندوستان بری طرح پھنس گیا ۔ اس کیس نے پوری دنیا کو دکھا دیا کہ ھندوستان اپنے جاسوس دہشت گرد، پاکستان کا امن تباہ کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے اور پاکستان کے اندر خصوصا بلوچستان میں ھندوستان کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں کس طرح جاری ہیں۔ سونے پر سہاگہ ھندوستان اصل میں جو چاہتا تھا وہ نہ ہو سکا۔

بصد احترام جو خواتین و حضرات اپنے تجربے یا قابلیت کی بنا پر یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ کلبھوشن کا کیس صرف قونصلر رسائی کا معاملہ تھا اور اس نکتے پر پاکستان کو شکست ہوئی یا ھندوستان جیت گیا وہ اوپری سطح پر سوچ رہے ہیں۔ آپ کا یہ موقف بے شک اپنے نکتے کو ضدی بن کر سچ ثابت کرنے کے لئے ہو یا ایک اچھا قانون دان بن کر اپنا قانونی نکتے کو بیان کرنا دونوں صورتوں یہ بہت سطحی تبصرہ اور تجزیہ ہو گا کہ ھندوستان صرف قونصلر تک رسائی کی خاطر عالمی عدالت گیا۔ اگر ایسا مان لیا جائے تو ھندوستان اس سے کیا حاصل کرے گا ۔ کیا ھندوستان اس کی بنا پر پاکستان کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ نہیں کر سکتا۔ کیا ھندوستان کلبھوشن کو رہا کرا لے گا۔ نہیں کرا سکتا۔ ایسا تو عالمی عدالت بھی نہیں کر سکتی۔ عالمی عدالت کے جج نے بھی پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ وہ حتمی نہ تو سنا سکتے ہیں نہ ہی پاکستان کے قوانین پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ عالمی عدالت کسی بھی ملک کے قوانین کو تبدیل کرنے کی رائے صادر نہیں کر سکتی۔

ھندوستان کا مقصد کچھ اور تھا ۔ ھندوستان کلبھوشن کی رہائی اور ھندوستان واپسی چاہتا تھا۔ ھندوستان نے کوشش کی وہ اس ایک نکتے کی آڑ میں یہ کیس عالمی عدالت لے کر جائے گا اور حسب معمول اپنی کامیاب لابنگ کے ہتھکنڈے استعمال کر کے صرف رسائی نہیں بلکہ رہائی کی راہ بھی ہموار کرے گا۔ تاہم وہ یہ سب نہیں کر پایا۔ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ھندوستان کی فتح ہے کیونکہ مسئلہ قونصلر رسائی تک تھا تو پھر دنیا کی سیاست کی بساط پر کھیلی جانے والی بازیوں اور اسکے پینتروں سے نا آشنا ہیں۔ فیصلے کی کاپی اٹھائیں اور صفحہ نمبر 35 اٹھا کر پڑھئے۔ ھندوستان کے مطالبات پر نظر ڈالئے دیکھئے انھوں نے کیس کسے تیار کیا ہے۔

Annul the decision of the military court and restrain Pakistan from giving effect to the sentence or conviction in any manner
and

Direct it to release the Indian national Jadhav fourthwith and to facilitate his safe passage to India

In the alternative if this court were to find that Jadhav is not to be released then annul the decision of the military court and restrain Pakistan from giving effect to the sentence awarded or

And direct a trial under the ordinary law in the civilian court

دراصل ھندوستان قونصلر تک رسائی کے بہانے یہ مطالبات منوانا چاہتا تھا۔ لیکن اسکو منہ کی کھانا پڑی۔ کیونکہ بریت، رہائی، واپسی اور سول عدالت میں مقدمہ ھندوستان کے ان چاروں مطالبات کو مسترد کر دیا گیا۔ ھندوستان کی خواہش یہ بھی تھی کہ یہ کیس لے جا کر پاکستان کی اس بات پر سبکی کی جائے کہ پاکستان ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کرنے والا ایک باغی ملک ہے جس کو کسی اصول اور قانون کی پرواہ نہیں۔ حالانکہ پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان نے ویانا کنونشن کا احترام کرتے ہوئے اگلے ہی روز ابھی نندن کو رہا کر دیا تھا۔

ھندوستان اور پاکستان عالمی عدالت میں ثالثی کے لئے کوئی پہلی بار نہیں گئے ۔ 1971 میں باہمی بات چیت سے پاکستان نوے ہزار قیدی چھڑانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ اندرا اور بھٹو کے ڈائیلاگ کی کامیابی تھی۔ عالمی عدالت کی نہیں۔ پاکستانی طیارہ گرانے کے معاملے پر بھی ثالثی عالمی عدالت نہیں کرا سکی تھی۔ لیکن اسکے باوجود ہم عالمی عدالت کا سہارا کیوں لیتے ہیں۔ 1986 میں امریکہ نے اپنے آپ کو چند ناپسندیدہ فیصلوں خاص کر نکاراگوا کے حق اور امریکہ کے خلاف فیصلے پر عالمی عدالت کے لازمی دائرہ اختیار سے علحیدہ کر لیا تھا۔ پاکستان بھی اگر چاہتا تو کلبھوشن کے معاملے پر آئی سی جے کی ثالثی کو منظور نہ کرتا۔ پاکستان کو کلبھوشن کی پھانسی سے نہیں اسکے زندہ رہنے سے فائدے ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے پاس یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ کلبھوشن کے بدلے بھارت سے اپنے کئی مطالبات منوا سکتا ہے۔ شائد اگر پاکستان اور بھارت میں حالیہ ماضی میں اتنی کشیدگی نہ ہوئی ہوتی تو عالمی عدالت قونصلر کا حق بھی بھارت کو نہ دیتی لیکن فیصلے کو ایسا بنایا گیا کہ دونوں مملک کو قابل قبول ہو۔

اس کیس کا خاص پہلو جسٹس جیلانی کا شاندار اختلافی نوٹ ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ انھوں نے اس فیصلے کی دھجیاں بکھیر دیں ان کے اختلافی نوٹ سے چند سطریں ملاحظہ ہوں۔۔۔

ویانا کنونشن کسی صورت جاسوسوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ ویانا کنونشن لکھنے والوں نے جاسوسوں کو شامل کرنے کا سوچا بھی نہیں ہو گا۔ عدالت کے لئے ھندوستان کی درخواست کو قابل قبول نہیں ہونا چاہئے تھا۔ انھوں نے یاد دلایا کہ بھارت اور پاکستان کے بیچ 2008 کے معاہدے نے قومی سلامتی کی بنیادوں پر قیدیوں بارے قونصلر رسائی پر سوالات مرتب کئے ہیں۔ عدالت نے ایسے وقت میں ایک خطرناک مثال قائم کی ہے جب ریاست کو دہشت گردی کی سر گرمیوں اور قومی سلامتی خطرات کا سامنا ہے۔ دہشت گردی ایک جنگی ہتھیار بن چکا ہے۔ موجودہ کیس عدالت کے اختیار سے باہر ہے جس پر کورٹ نے بھروسہ کیا۔

ٹاپ اسٹوریز