ریل کی سیٹی بجی!

آوازہ

ریلوے کو منافع بخش بنانے کا حکم، بزنس پلان طلب

بوڑھا ہونے پرسر کے بال سفید ہونے لگتے ہیں، عمر سو برس سے بڑھ جائے تو بالوں کی یہی سفیدی سیاہی میں بدل جاتی ہے۔ یہ ایک Myth یا تصور ہے، اپنے بچپن میں جس کا تذکرہ بڑے بوڑھوں کی زبانی سنا۔ اس اثنا میں اپنے بالوں میں تو سفیدی نے جگہ بنائی لیکن وہ بزرگ جن کے بال سیاہ ہونے چاہئیں تھے ان میں سے کچھ کمر باندھ کر چلتے بنے جو باقی رہ گئے ہیں، اُن کے دل کی مراد ابھی تک تو برنہیں آئی۔

ہاں، البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ کچھ ایسی باتیں اور روائتیں جو دیکھتے ہی دیکھتے بدل چکی تھیں بلکہ طاقِ نسیاں ہوچکی تھیں، اب پھر لوٹنے لگی ہیں۔ بدلتے موسموں اور ان موسموں کی خوشبو سے جنم لینے والے لطیف جذبوں کو زباں دینے والے رومانی شاعر منیر نیازی نے دل میں ترازو ہوجانے والا ایک شعر کہا تھا

صبح کاذب کی ہوا میں درد کتنا تھا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل درد سے بھر گیا

منیر نیازی کے زمانوں میں ریل کی سیٹی سے دلوں میں درد اس لیے بھر جایا کرتا تھا کہ گاڑی دیکھتے ہی دیکھتے محبوب کو یہاں سے وہاں پہنچا دیتی، پھر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل، کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔ اس زمانے میں سفر بہت مشکل تھے اور ریل میں بیٹھنا جدائی کی خبر دیتا تھا لیکن ہمارے عہد کے آتے آتے سفر آسان ہو گئے اور ریل کا سفر پکنک بن گیا۔ ریل کے سفر کی خوشی میں بچے بڑے نہال ہوجاتے اور اٹھارہ بیس گھنٹے کا خوشگوارسفر ایک یاد بن کر برسوں مزہ دیتا۔

اب اِس سفر کا مزہ تو گیا البتہ ریل کی سیٹی اب ایک بار دلوں میں درد بھرنے لگی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے ریل کا سفر بتدریج غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔ لوگ باگ گزشتہ گیارہ مہینوں میں اس ذریعہ سفر کے حادثات کا ذکر کرتے ہیں جن میں تین درجن کے قریب بے گناہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ آثار بالکل دکھائی نہیں دیتے کہ آنے والے دنوں میں صورت حال بہتر ہو پائے گی۔

زرداری صاحب کے دورِ حکومت میں ریل پر برا وقت آیا تھا۔ سبب اس کا کاروباری مسابقت بتایا گیا لیکن حکومت بدلی تو ریل کی قسمت بھی بدلی۔ بظاہر دکھائی یہی دیتا تھا کہ خواجہ سعد رفیق جن کی رگ رگ میں کبھی بجلیاں بھری ہوتی تھیں، وہ اس وزارت میں آ کر بدل سے گئے اور انھوں نے اپنی توانائیاں وزارت کی بہتری میں صرف کرنی شروع کردیں۔

دیکھنے کو بہت کچھ ملا۔ یہ بھی سننے کو ملا کہ اب پاکستان کی ریل وقت پر چلتی ہے۔ اس میں سفر کرنے والے اذیت کا شکار نہیں ہوتے۔ کچھ کچھ ایسا بھی کہا گیا کہ اب اپنی ریل میں بیٹھ کر دنیا کی اچھی اچھی ٹرین سروس کے مزے کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ کوئی بات زبان زدعام ہونے لگے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سچائی تو ضرور ہوتی ہو گی۔

شیخ رشید اس وزارت میں دوبارہ آئے تو امید بندھی کہ کچھ اچھا ہو گا۔ سبب اس خوش گمانی کا یہ تھا کہ انھیں اس وزارت کا تجربہ دوسروں سے بڑھ کر تھا کیونکہ اس کی ذمہ داری سنبھالنے کا موقع انھیں تیسری بار مل رہا تھا۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ یہ تجربہ انھیں کچھ راس نہیں آیا۔ ریل کی کارکردگی متاثر دکھائی دیتی ہے۔

اُن پرپہلا اعتراض تویہی آیا کہ وقت کی پابندی کا معاملہ کچھ ماٹھا ہو گیا ہے۔ دوسرا معاملہ حادثات کا ہے۔ گیارہ ماہ کے مختصر عرصے میں اتنے حادثات ہو گئے ہیں کہ شیخ صاحب جیسا لسان العصر بھی اب اپنی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے عجز محسوس کرتا ہے۔ سیاست، قسمت اور نیت کے معاملات سے ہمارا لینا دینا کچھ نہیں، البتہ ایک بات ایسی ہے جس پر توجہ دی جائے تو اس محکمے کے معاملات میں کچھ بہتری آسکتی ہے۔

کئی برس ہوتے ہیں رحیم یارخان تا سکھر سیکشن حادثات کے لیے بدنام ہو گیا۔ اس زمانے میں ان سطور کے لکھنے والے نے لاہور تا سکھر ریل سے تعلق رکھنے والے ایک سے بڑھ کر ایک ماہر سے ملاقات کی۔ کم فاصلوں پر چلنے والی کم رفتار ٹرینوں میں بار بار بیٹھنے کا موقع ملا۔ کئی دنوں تک سفر کی مار کھائی اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ ریل کی پٹری اور اس پر چلنے والی ہماری ٹرینوں کو کیا عارضہ لاحق ہوگیا ہے کہ آئے روز حادثات ہوتے ہیں اور ابنائے وطن جان سے جاتے ہیں۔

اِس تحقیق کے نتائج مختصر نہ تھے لیکن دوچار باتیں اب بھی یاد ہیں، مثلاً ٹرین پٹری سے اس لیے اترتی ہے کہ برس ہا برس کی گھسائی سے پٹری کی موٹائی میں کمی واقع ہوجاتی ہے، اس طرح ٹرین کے پہئے کی اندرونی دیوار نٹ بولٹس سے ٹکرا کر اچھال پیدا کرتی ہے، یوں آن کی آن میں گاڑی پٹری سے اتر جاتی ہے۔ اسی طرح کانٹا بدلنے کے نظام میں ایک چیز Tongueہوتی ہے جو راستہ بدلنے میں معاون ہوتی ہے۔ اس کی حالت بھی برسوں سے پتلی ہے۔

ہماری ریل کو جو تیسرا عارضہ لاحق ہے، اس کا تعلق ماحول سے ہے۔ ریل کا ملازم ایک طویل عرصے سے بددلی اور پژمردگی کا شکار ہے۔ اس کے حالات کار میں تبدیلی کئی دہائیوں سے نہیں آئی۔ ایسی کیفیات بڑے بڑے فرض شناسوں کا پتہ پانی تو کرتی ہی ہیں لیکن نظامِ کار کو بھی متاثر کردیتی ہیں۔

پاکستان ریلوے کا ایک اور بڑا مسئلہ مین ٹی نینس کی کمی ہے۔ ریل کے انجن اور دیگر اہم کل پرزوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو خوف آتا ہے۔ جہاں مضبوط نٹ بولٹس لگنے چاہئیں، وہاں موٹی موٹی تاریں مروڑ کر چیزوں کو جوڑا گیا ہے۔ کئی ٹرینیں ایسی بھی ہیں جن کے فرش ٹوٹ چکے ہیں اور چلتے ٹرین سے پٹری کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو ریل کے مسافروں کی چابک دستی ہے کہ وہ نٹوں کی طرح کود پھاند کر گرنے سے بچ جاتے ہیں ورنہ کوئی کسر رہ نہیں گئی۔

چوتھا بڑا مسئلہ جدید ٹیکنالوجی سے اجتناب کا ہے۔ اس ورچوئل عہد میں جب دنیا کا تما م ترمواصلاتی نظام ڈیجیٹل ہوچکا ہے ریلوے کے مختلف سیکشنوں پر کمیونکیشن کا نظام ایسا ہے جسے دیکھ کر وہ زمانے یاد آجاتے ہیں جب ریل ایجاد ہوئی ہو گی، مثلاً سرگودھا ملک وال سیکشن پر ریلوے اسٹیشن سے ایک کارکن بھاگ کر ڈرائیور کو لوہے کا ایک کڑا پکڑاتا ہے جو جس کا مطلب ہوتا ہےAll is well، گاڑی آگے جا سکتی ہے۔بس، اپنی گاڑی تو اب اسی طرح ہی چل رہی ہے۔

ٹاپ اسٹوریز