نظریہ نفرت

پاکستان کی حالیہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو بہت سے سیاستدانوں پر مقدمے قائم ہوتے نظر آئیں گے لیکن اگر سیاسی مقدمے کی بات ہو تو وہ صرف ایک ہی قائم ہوا ، اور وہ بھی ایک سابق فوجی سربراہ پر، یہ مقدمہ کسی ڈکیٹر نے نہیں بلکہ ہمارے نام نہاد جمہوریت پسند سیاستدانوں نے قائم کیا۔ بدعنوانی اور سنگین کرپشن کے الزامات کے تحت سیاستدانوں پر چلنے والے مقدمات کے برعکس جنرل مشرف کو سیاسی انتقام، ذاتی عداوت اور بغض کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔

سیاسی انتقام کے لیے بنائے گئے مقدمات تو بھونڈے ہوتے ہی ہیں ، لیکن ایسے مقدمات کے فیصلے اس سے بھی زیادہ بھونڈے ہوتے ہیں۔ چند دن قبل جب جنرل مشرف پر چلنے والے اس مقدمے کا فیصلہ آیا تو اسے پڑھ کر واضح ہو گیا کہ یہ مقدمہ صرف اور صرف سیاسی انتقام اور ایک ادارے کی نفرت میں دیا گیا۔ اس فیصلے میں جس طرح آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں اس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ اس کا آئین اور قانون کی بالادستی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس فیصلے میں لکھا گیا کہ اگر جنرل مشرف فوت بھی ہو جائیں تو ان کی لاش کو تین دن تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر لٹکایا جائے، جس آئین کی نام نہاد بالادستی کے لیے یہ مقدمہ قائم کیا گیا اس کی کون سی شق میں لاشوں کی بے حرمتی اور ایسے وحشیانہ اقدامات کا ذکر ہے؟؟

یہ فیصلہ ایک بار پھر ہمارے ملک میں منافقوں کے ٹولے کو سامنے لایا ہے۔ غور کریں اس فیصلے پر کون لوگ بغلیں بجا رہے ہیں، وہ نام نہاد جمہوریت پسند رہنما جنھوں نے جنرل مشرف سے حلف لیا تھا، جن میں اتنی جرات نہیں کہ اپنے سیاسی آقاؤں کی کھربوں کی کرپشن پر لب کشائی کر سکیں؟

وہ آئین کی بالادستی والے بہروپیے رہنما جو دہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے قائم ہونے والی فوجی عدالتوں پر رو پڑتے ہیں، نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار جن سے بھارتی پائلٹ کی دو دن کی گرفتاری برداشت نہیں ہوئی تھی اور اس کی رہائی کا مطالبہ کر دیا تھا، وہ صحافی جنھوں نے مشرف کے دور میں ملنے والی میڈیا کی آزادی کی وجہ سے موٹر سائیکل سے لینڈ کروزر تک سفر طے کیا اور جو ٹی وی اسکرین پر بڑھ چڑھ کر قوم کر بتاتے تھے کہ ایک وزیراعظم کی کابینہ کے وزیر خود اپنے رہنما کو چور مانتے ہیں لیکن اب یہی صحافی اس وزیراعظم کو نیلسن مینڈیلا بنانے پر بضد ہیں، اس فیصلے پر خودکش دھماکوں میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد اور عورت مارچ گروپ اینڈ میرا جسم میری مرضی والے دیسی لبرل بھی ایک پیج پر ہیں۔

اب سوچنے کی بات ہے کہ یہ سب لوگ ایک پیج پر کیوں اکھٹے ہو جاتے ہیں؟ تو عرض ہے کہ آپ نے نظریہ ضرورت کے بارے میں تو بہت سنا ہوگا لیکن نظریہ “نفرت” پر ہم شاذونادر ہی کوئی بات سنتے ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے علاوہ پاکستان میں بھی ایک ایسا طبقہ موجود ہے جن کو فوج سے خاص نفرت ہے، یہ نفرت ہی ان سب کا مشترکہ نظریہ ہے۔

فوج اور فوجی قیادت قطعاً تنقید سے بالا نہیں ۔ نہ ہی میں یہاں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہوں کہ فوجی قیادت سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہوئی کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ بھٹو ہو یا پھر نواز شریف یہ تحفے اس قوم کو فوج نے ہی دیے ہیں۔ لیکن اگر آپ غور کریں تو حالیہ عرصے میں عدلیہ کے فیصلے ہوں یا میڈیا کی سکرینیں یا پھر کچھ صحافیوں کے قلم ، یہ بات بالکل واضح ہے کہ فوج کو بحیثیت ادارہ مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

فیض آباد کا وہ دھرنا جسے اس وقت کی حکمران جماعت کے رہنما اور وزیراعظم کے داماد عاشقوں کی محفل قرار دے رہے تھے ، اس دھرنے کا الزام فوج پر ڈالنے کی کوشش کی گئی، پھر کس طرح سابق چیف جسٹس کھوسہ صاحب جو سومو ٹو نہیں لیتے تھے ، لیکن انھوں نے آرمی چیف کی توسیع کے معاملے پر بہت تیزی دکھائی۔

گردن تک کرپشن میں ڈوبی سیاسی قیادت کو چھٹی کے روز بھی “انصاف “ مہیا کیا جا رہا ہے، ہسپتالوں پر حملے کرنے والے والے آئین اور قانون کے محافظ ہیں، جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے سیاسی رفقاء آج بھی ملک میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں، مارشل لا لگنے سے پہلے ہی اسے جائز قرار دینے والے جج آج بھی معزز ہیں، ہاں اگر کوئی غدار ہے تو آرمی چیف غدار ہے۔

پھر کچھ دانشور ہمیں بتاتے ہیں کہ اس ملک میں سب کچھ فوج کی مرضی سے ہوتا ہے۔ یہی اصل میں نظریہ نفرت ہے۔

ٹاپ اسٹوریز