کراچی:وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر سیکریٹری داخلہ نے رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ کو ارشاد رانجھانی کے قتل کیس سے متعلق جوڈیشل انکوائری کرنے کیلئے خط لکھ دیا ہے۔
ترجمان وزیراعلی سندھ کے مطابق سیکریٹری داخلہ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کو انکوائری کرنے کی استداد کی ہے، انکوائری میں قتل کے اسباب، مظلوم کو طبی امداد دینے میں تاخیر کے خلاف کارروائی تعین کر کے رپورٹ 30 یوم میں دینے کی درخواست کی گئی ہے۔
واضح رہے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آج ارشاد رانجھانی کے قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری کروانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس ضمن میں چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی کہ سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار درخواست دی جائے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ ہم کسی صورت کسی شہری کا خون معاف نہیں کر سکتے۔انہوں نے آئی جی پولیس کو قاتلوں کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے قاتل سلاخون کے پیچھے چاہیں۔
مراد علی شاہ نے ارشاد رانجھانی کے قتل پر نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس کو ہدایت کی ہے کہ مختلف پہلو سے کسی سینئر آفیسر سے انکوائری کروائی جائے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ یونین کونسل چیئرمین رحیم شاہ نے مبینہ طور پر ارشاد رانجھانی کو سرے عام بازار میں قتل کیا، اتنی ہمت کوئی کیسے کر سکتا ہے، جائے وقوع پر بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے، پھر بھی کیسی نے زخمی کو اسپتال منتقل نہیں کیا، ایسی کیا وجہ تھی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی پولیس سوالات کیے کہ پولیس واقع کے بعد کتنی دیر سے جائے وقوع پر پہنچی؟ کیا پولیس زخمی ارشاد کو اسپتال لے گئی؟ اس واقع کے بعد اب تک کتنے مجرم گرفتار ہوئے ہیں؟ ایف آئی آر کس کی مدیت میں درج کی گئی ہے اور کیا دفعات لگائی گئی ہیں؟ یہ واقع قانون کی بے خوفی کا نتیجہ نظر آ رہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
آئی جی سندھ کے احکامات پر ایڈیشنل آئی جی کراچی نے معاملے کی انکوائری کیلئے ٹیم تشکیل دے دی ہے جس کی سربراہی ڈی آئی جی ایسٹ عامر فاروقی کو سونپی گئی ہے۔ ایس ایس پی ایسٹ غلام اصفر مہیسر اور ایس ایس پی انویسٹیگیشن ملیر فرخ رضا بھی ٹیم میں شامل ہیں۔
آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے بھی شاہ لطیف ٹاؤن (بھینس کالونی) میں مبینہ ڈاکو کی ہلاکت کا نوٹس لے لیا۔ دو دن قبل مبینہ ڈاکو یو سی چیئرمین رحیم شاہ کی فائرنگ سے ہلاک ہوا تھا۔
ہم نیوز نے سندھ پولیس کے ترجمان کے حوالے سے بتایا تھا کہ مبینہ ڈاکو کی شناخت ارشاد رانجھانی کے نام سے ہوئی ہے۔ ارشاد رانجھانی کے لواحقین نے اسے بے گناہ قرار دیا تھا۔ وہ اندرون سندھ دادو کا رہائشی تھا۔
سندھ پولیس کے حوالے سے ہم نیوز نے بتایا ہے کہ آئی جی سندھ نے ڈی آئی جی ایسٹ سے واقع کی انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
Chairman @BBhuttoZardari plz take a Notice of Brutal killing of our Sindhi brother #IrshadRanjhani who were brutally killed on the road of Khi in by UC Chairman Rahim Shah. He should be arrested ASAP.
کوئی بولا ہی نہین میرے خاطر
تیرا کراچی بھی کوفا نکلا#JusticeForIrshadRanjhani pic.twitter.com/JvSIAmOCYa— Tanzeel Ahmed (@AhmedtanzeelPPP) February 7, 2019
مبینہ ڈاکو ارشاد رانجھانی کی زخمی ہونے کے بعد سڑک پر پڑے رہنے کی وڈیو سوشل میڈیا پر گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران وائرل ہوئی جس کے بعد آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے نوٹس لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مبینہ زخمی ڈکیت ایمبولینس میں لیٹا ہوا ہے اور پولیس اس سے پوچھ گچھ کررہی ہے۔ حیرت انگیز طور پر زخمی کو سب سے پہلے اسپتال پہنچایا جاتا ہے لیکن یہاں اس قانون کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی جس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلا کہ ارشاد رانجھانی جان کی بازی ہار گیا۔
ارشاد رانجھانی کو گولی مارنے والے یوسی چیئرمین رحیم شاہ کا یہ بیان مقامی ذرائع ابلاغ میں آیا کہ جب وہ بینک سے رقم لے کر نکلا تو موٹر سائیکل سوار ڈاکو اس کا پیچھا کررہے تھے۔ اپنا پیچھا ہوتا دیکھ کر اس نے گاڑی ہی سے آنے والوں پر فائرنگ کردی جس سے ایک گرگیا اور دوسرا بھاگ گیا۔
پولیس کی جانب سے ابتدا میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ مرنے والا ڈکیت یوسی چیئرمین رحیم شاہ کو لوٹنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس پر رحیم شاہ نے فائرنگ کی جس سے ڈکیت زخمی ہوا جو بعد میں دم توڑ گیا۔
پولیس کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا تھا کہ ڈکیت سے نائن ایم ایم کا پستول ملا تھا۔ پولیس کے مطابق رحیم شاہ واقع کا مدعی تھا اور اسی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہجوم میں موجود ایک شخص زخمی کی مدد کرنے کا کہہ رہا ہے اورساتھ ہی وہ وڈیو بنانے سے بھی روک رہا ہے۔
وائرل ہونے والی وڈیو میں جسٹس فار ارشاد کے مطالبات گونجتے سنائی دے رہے ہیں۔
Shocked at the horrifying and brutal murder of a young man – Irshad Ranjhani – in Karachi. Hope the law enforcement agencies will arrest the culprits and bring them to justice. #JusticeForIrshadRanjhani
— Nafisa Shah (@ShahNafisa) February 8, 2019
پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے اسی صورتحال پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے پیغام میں کہا کہ نوجوان ارشاد رانجھانی کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا یہ سب دیکھ کر افسوس ہوا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کو گرفتار کرکے ارشاد کو انصاف فراہم کریں گے۔
Broad daylight heinous murder in #Karachi. Shared video is clear evidence. All those who stood there not helping the injured helpless dyeing #IrshadRanjhani seemed pleading for help must be identified and treated as accomplices until proved otherwise. #JusticeForIrshadRanjhani https://t.co/zXnifLIGca
— Raza Haroon (@mrazaharoon) February 8, 2019
ارشاد رانجھانی کے لواحقین نے اسی سلسلے میں کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کیا جس میں شامل آفتاب شاہ نے دعویٰ کیا کہ مقتول ارشاد رانجھانی ان کی جماعت ’جئے سندھ تحریک‘ کراچی کے صدر تھے۔
مقتول کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ ضلع دادو میں اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لیے 15 روز قبل دبئی سے آئے تھے اور دو روز قبل دادو سے واپس کراچی کے علاقے کورنگی میں اپنی رہائش گاہ پہنچے تھے۔
Irshad Ranjhani’s murder is the murder of whole Sindh.
A Sindhi is openly killed in heart of Sindh, what other alaram that could be to wake Sindhis up than this sad incident?#ArrestRahimShah#JusticeForIrshadRanjhani pic.twitter.com/OYESLLRbk0— Rashid bhutto (@RaashidBhutto) February 7, 2019
ارشاد رانجھانی کے لواحقین کی جانب سے کراچی پریس کلب پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شریک جئے سندھ تحریک کے رہنما نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں الزام عائد کیا کہ مقتول کو دو گولیاں لگی تھیں اور ہائی وے پرتڑپ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد شاہ لطیف ٹاؤن پولیس تڑپتے ہوئے ارشاد رانجھانی کو اسپتال لے جانے کے بجائے تھانہ لے گئی جہاں اس کو مبینہ طور پر آٹھ گولیاں مار دیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق احتجاج میں شریک جئے سندھ تحریک کے کارکنان نے مطالبہ کیا کہ قتل کا مقدمہ بھینس کالونی کے یوسی چیئرمین رحیم شاہ، ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن اور ڈی ایس پی بن قاسم کے خلاف درج کیا جائے۔