امریکہ افغانستان سے ایک فاتح کی حیثیت سے جانا چاہتا ہے، ایاز وزیر



اسلام آباد: افغان امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق سفیر ایاز وزیر نے کہا ہے کہ دو قوتیں افغانستان میں امن کی مخالف ہیں، ایک افغانستان کے اندر موجود وہ طبقہ جس کے مفادات اس جنگ سے وابستہ ہیں دوسرے خطے کے وہ ممالک جن کا افغانستان کی بدامنی میں فائدہ ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے خلوص پر شک نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ امن کی صورت میں ان دونوں ممالک کا فائدہ ہے۔ طالبان کے ساتھ صلح اشرف غنی کی بہت بڑی فتح ہو گی۔

افغان صورتحال پر اپنا تجزیہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اب افغانستان سے بھاگنے کے راستے تلاش کر رہا ہے اور وہ یہاں سے ایک فاتح کی حیثیت سے نکلنا چاہتا ہے، امریکہ کو سمجھ آ گئی ہے کہ مسئلے کے حل کی کنجی پاکستان کے پاس ہے۔

امریکہ کے بارے میں ایاز وزیر کا نکتہ نظر تھا کہ 2010-11 میں وہ طالبان کا نام بھی نہیں سننا چاہتے تھے اور آج وہ طالبان کے آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ چرچل نے ایک بار کہا تھا کہ امریکیوں پر اس وقت اعتماد کریں جب آپ دیگر تمام آپشن آزما چکے ہوں۔ امریکہ بھی اپنے تمام آپشن آزما چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ، افغان حکومت اور طالبان کسی حل تک نہ پہنچے تو 1990 کی دہائی کی خانہ جنگی سے بھی بدتر حالات ہوں گے، اس میں پاکستان کا بھی بہت نقصان ہو گا۔ امریکہ اور افغانستان خوش ہوں گے کہ سی پیک میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ سب کا ہمسائیہ ہے، وہ یہاں سے نکل بھی جائے تو وہ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

دفاعی امور کے ماہر جنرل (ر) خالد نعیم لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستانی قیادت تین چیزوں سے مرعوب ہو جاتی ہے، پہلی بات دھونس، دوسری ڈالر اور تیسری پیار ہے جو سب سے زیادہ خطرناک ہے، پاکستان کو اپنے مفادات کا خیال رکھنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ امریکہ کو جانے کا ٹائم ٹیبل دینا چاہیئے، انہوں نے روس اور ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کر لیے ہیں، اس لیے ان کی حیثیت بہت مضبوط ہے۔

جنرل (ر) خالد نعیم لودھی نے کہا کہ امریکہ اور موجودہ افغان حکومت کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں امن نہ ہو، یہاں امن کی خواہش صرف علاقائی ریاستوں کو ہے۔ امریکہ یہاں طویل عرصے تک رہ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے افغانستان میں شکست ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ڈمہ ڈولا سے لے کر ملا منصور تک کی ہلاکت یہ ثابت کرتی ہے کہ امریکہ یہاں امن نہیں چاہتا۔ تمام ممالک کو امریکہ کو یہاں سے نکلنے میں مدد کرنی چاہیئے۔

پروگرام میں شریک سینیٹر انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ طالبان نے 17 سال کے بعد خود کو ایک فریق کی حیثیت سے منوایا ہے، پاکستان کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیئے کہ ہمارا ان پر کوئی اثر و رسوخ ہے، ابھی اس معاملے میں کافی رکاوٹیں آنے کا خدشہ ہے، پاکستان کو صرف اپنے مفادات منوانے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو علاقے کی تمام قوتوں سے منسلک رہنا چاہیئے، افغانستان کا امن سب کے مفاد میں ہے۔ طالبان کو علم ہے کہ انہوں نے اس بار مختلف طرز کی حکومت کرنی ہے، انہوں نے 17 سال کے دوران یہ بات سیکھی ہے۔ اگر وہ مذاکرات کے ذریعے حکومت میں آئیں گے تو انہیں دنیا بھی تسلیم کرے گی۔

افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بہت سے مسائل موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان کی سیاسی و معاشی صورت گری کیا ہو گی، کہیں یہ عالمی دہشت گردی کا مرکز تو نہیں بن جائے گا، یہاں ایک نارمل زندگی کیسے شروع ہو گی۔

انوار الحق نے کہا کہ ان 17 سالوں میں جنوبی افغانستان کے بہت سے علاقوں میں امریکی فوجوں نے افغان طالبان کو اربوں ڈالر کی رشوت دی ہے۔ اس احمقانہ جنگ کی قیمت افغان اور پاکستانی عوام نے ادا کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ ان کی توجہ جنگوں پر رہی ہے اور اس دوران چین نے معاشی ترقی کر لی ہے۔

 


متعلقہ خبریں