موجودہ عدالتی نظام میں دہشتگردوں کو سزا دینا ممکن نہیں، آصف یاسین ملک



اسلام آباد: پاک فوج کے سابق کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام معمول کے نظام انصاف کی ناکامی کی علامت ہے۔ پارلیمنٹ نے ضروری قانون سازی نہیں کی جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو سزا دینا ناممکن ہو چکا تھا اس لیے فوری انصاف کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں جہاں مقدمات کا فیصلہ بہت جلدی کیا جاتا ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جیلیں مجرموں کی آماجگاہ بن جاتی ہیں اور وہ وہاں بیٹھ کرجرائم کے منصوبے بناتے ہیں اور گواہوں کو خوفزدہ کرتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے بھی انسانی حقوق تھے جنہیں دہشت گردوں نے ماردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ملزموں کو اپنے دفاع کا پورا موقع ملتا ہے، یہ ایک پراپیگنڈا ہے کہ ان عدالتوں میں انصاف نہیں ہوتا۔

آصف یاسین ملک نے کہا کہ جب نیویارک اور سسلی میں مافیا کے خلاف عدالتیں فیصلہ دیا کرتی تھیں تو وہاں بھی ججز اور گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا تھا۔

ایک سوال کے سوال میں انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا ایک مکمل نظام ہے جس میں ملزموں کے جرم کی نوعیت بھی مدنظر رکھی جاتی ہے اور اسی کے مطابق انہیں سزا دی جاتی ہے۔

معمول کا نظام انصاف دہشت گردوں کو سزا دینے سے قاصر ہے، عامر ضیاء

پروگرام کے میزبان عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ عام حالات میں کسی بھی ملک میں خصوصی یا فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں ہوتی ، لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دہشتگردی کے شکار پاکستان میں اک عرصہ دراز سے عام حالات نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد جہاں ایک طرف انتہائی سست عدالتی نظام کا فائدہ اٹھا کر مقدموں کو طوالت دیتے تو دوسری طرف انصاف کے عمل کو غیرقانونی طریقوں سے متاثر کرنے کی کوششیں کرتے تھے۔ اس میں رشوت سے لیکر وکلا، تفتیشی افسران ، گواہوں اور حتیٰ کہ معزز جج حضرات اور انکے خاندان والوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے نام پر جن عناصر نے فوجی عدالتوں کے خلاف محاذ کھولا ہوا ہے یا تو وہ پاکستان کے معروضی حالات کو بلکل نہیں سمجھتے  یا پھر وہ جان بوجھ کر انہیں متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔۔۔ دونوں صورتوں میں انسانی حقوق سے زیادہ یہ عناصر دہشتگردوں کے حقوق کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

ہمارے ہاں قوانین پر عمل نہیں ہوتا، ڈاکٹر شعیب سڈل

پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل اور سابق محتسب ٹیکس شعیب سڈل نے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں طویل عرصے سے خرابیاں موجود ہیں جنہیں درست نہیں کیا گیا اوراس وجہ سے ماورائے عدالت قتل جیسے معاملات درپیش آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے نیشنل ایکشن پلان میں بھی کہا تھا کہ عدالتی نظام کی ازسرنو تشکیل دیں گے لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ نہ ہی ججز کا تحفظ کیا جا سکا ہے اور نہ ہی گواہوں اور تفتیشی افسروں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکا ہے۔

سزائے موت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب 2015 کے آغاز میں سزائے موت سے پابندی ہٹائی گئی تو اس سال قتل کے مقدمات میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ 2016 میں انہی جرائم میں مزید 10 فیصد کمی آئی۔

انہوں نے کہا کہ ایک دور میں کراچی کے تھانوں پر تالے لگ گئے تھے، جن پولیس والوں نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا انہیں ایک ایک کر کے قتل کر دیا گیا۔

گواہوں کے تحفظ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قوانین تو بنا دیے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ گواہوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین پر بھی عمل نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے کوئی گواہی دینے نہیں آتا۔

فوجی عدالتوں میں گواہ محفوظ ہوتے ہیں، راجہ عامر عباس

نامور ماہر قانون راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے دہشت گردی کے خلاف مقدمات کے لیے کوئی خصوصی قانون سازی نہیں کی جس کی وجہ سے فوجی عدالتوں کی ضرورت پیش آئی۔ فوجی عدالتوں میں گواہوں، ججوں اور تفتیش کاروں کو دھمکی دینا ممکن نہیں ہوتا اس لیے دہشت گردوں کو سزا سنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔

گواہوں کے تحفظ کا قانون بنانا لازم ہے، عارف چوہدری

معروف قانون دان عارف چوہدری نے اپنا نکتہ نظر پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گواہوں کے تحفظ کا قانون بہت ضروری ہے ۔ گواہوں کو اتنا محفوظ ہونا چاہیئے کہ وہ بغیر خوف کے عدالتوں میں بیان دے سکیں۔ عام عدالتوں میں وکلا، ججز اور گواہ غیر محفوظ ہیں۔ امریکہ میں بھی دہشت گردوں کے لیے خصوصی قوانین اور خصوصی عدالتیں بنانا پری ہیں۔

فوجی عدالتیں ایک عارضی لیکن ضروری حل ہیں، شرف الدین میمن

سی ایل پی سی کے سابق سربراہ شرف الدین میمن کا کہنا تھا کہ بہت دفعہ عینی شاہدوں اور تفتیش کرنے والوں کو مار دیا جاتا ہے،  جس کی وجہ سے مجرموں کو سزا نہیں مل پاتی۔ فوجی عدالتیں دہشت گردوں کو سزا سنانے کے لیے ایک عارضی لیکن ضروری حل ہیں۔ بہت سے مجرموں  کا نیٹ ورک اسقدر مضبوط ہے کہ وہ جیل میں بیٹھ کر گواہوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔

 


متعلقہ خبریں