اسرائیل نے دماغ کے کینسر کا نیا طریقہ علاج دریافت کرلیا


یروشلم: اسرئیل میں دماغی کینسرکی ایک خطرناک قسم کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ہیبرو یونیورسٹی آف یروشلم  کی حالیہ تحقیق کے مطابق ایک مالیکیول تیار کیا گیا ہے جس سے گلوبلیسٹومہ (دماغی کینسر کی ایک قسم) کا علاج کرنا ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق دماغی کینسرکے امراض میں مبتلا مریض گلوبلیسٹومہ کا شکار ہوتے ہیں جو ایک خطرناک قسم گردانی جاتی ہے۔ حالیہ تحقیق کے نتیجے میں تیارکردہ مالیکیول دماغ میں اضافی پروٹین کی پیداوار روکنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق پروٹین کی اضافی پیداوار کینسرمیں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

طبی جرائد کے مطابق گلوبلیسٹومہ دماغ کے کینسر کی وہ قسم ہے جس میں نیوران (جن خلیوں پر دماغ مشتمل ہے) کی حفاظتی تہہ میں پروٹین کی زیادتی کی وجہ سے یہ تعداد حد سے بڑھنے لگتی ہے۔

ڈاکٹر عموماً جب مریض میں اس کینسر کی شناخت کرتے ہیں تو عموماً اسے یا اس کے عزیز و اقارب کو بتادیتے ہیں کہ مریض کے پاس بمشکل گیارہ سے 27 ماہ کا وقت زندہ رہنے کے لیے باقی رہ گیا ہے۔

کینسر کے روایتی طریقہ علاج میں سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ کیموتھراپی کی صورت میں اس مریض کی قوت مزاحمت بڑھ جاتی ہے جو گلوبلیسٹومہ جیسے کینسر میں مبتلا ہوتا ہے۔

اسرائیل میں مالیکیول تیار کرنے والے میڈیکل سائنسدانوں کو یقین ہے کہ گلوبلیسٹومہ میں مبتلا مریضوں کے لیے یہ طریقہ علاج زیادہ سودمند ثابت ہوگا۔

طبی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک ہی جین کینسر کی افزائش اور اس میں رکاوٹ کا سبب اسی وقت بنتا ہے جب وہ دو الگ اقسام کی پروٹین سے جنم لیتا ہے۔

حالیہ تحقیق کے دوران یہ تجربہ کیا گیا کہ تیارکردہ مالیکیول کے ذریعے اس پروٹین کی افزائش روک دی جاتی ہے جو کینسر کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ تیارکردہ مالیکیول اس خاصیت کا بھی حامل ہے کہ وہ اس پروٹین کی پیداوار کو قطعی متاثرنہیں کرتا ہے جو کینسر کی افزائش میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔

اس طریقہ علاج میں انسانی جسم ازخود بھی کینسر کے خلیوں کو ختم کرنے میں منہمک رہتا ہے جس کی وجہ سے کیموتھراپی بھی زیادہ بہتر نتائج دے پاتی ہے۔

طبی سائنسدانوں کو یقین ہے کہ اس طریقے سے وہ کینسر کے امراض میں مبتلا مریضوں کا زیادہ بہتر علاج کرسکیں گے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق اس مالیکیول کی پیداوار کے حقوق ہیبرو یونیورسٹی کی ساتھی کمپنی یسم کے پاس ہیں۔

ہیبرو یونیورسٹی کے علاوہ جرمن-اسرائیلی فاؤنڈیشن برائے سائنسی تحقیق اور ترقی (جی آئی ایف) اور اسرائیل انوویشن اتھارٹی بھی اس تحقیق میں شامل ہیں.


متعلقہ خبریں